اردو زبان کے گم گشتہ الفاظ-۳
قارئین کرام کو ایک مرتبہ پھر خوش آمدید۔ آج کی تحریر پچھلی اقساط کا ہی تسلسل ہے جس میں ان الفاظ کو شامل کیا جائے گا جن کا بالواسطہ یا بلا واسطہ تعلق ہمارے رہن سہن سے ہے۔ تو آئیے ہم ان بھولے بسرے الفاظ کو یاد کرتے ہیں
بیٹھک
بیٹھک ہندی زبان کا لفظ ہے۔ اس کا ماخذ لفظ بیٹھنا ہے۔ اس کے بہت سے معنی ہیں جیسے بیٹھنے کا عمل، چال چلن، نشست گاہ، پیندہ، اجلاس، میٹنگ وغیرہ۔ لیکن ہم آج اس بیٹھک کا تذکرہ کریں گے جس کے معنی مہمان خانہ کے ہیں یعنی گھر کا وہ حصہ جس میں مرد حضرات ملاقات کی خاطر جمع ہوں۔ ۱۹۷۰ کی دہائی میں اس لفظ کا استعمال بہت عام تھا۔ آج کل گیسٹ روم اور ڈرائنگ روم کو بیٹھک کا متبادل سمجھا جاتا ہے۔ ڈرائنگ روم دراصل ود ڈرائنگ روم ہے جو رفتہ رفتہ مختصر ہو کر ڈرائنگ روم رہ گیا یعنی وہ کمرہ جو باقی گھر سے الگ کیا گیا ہو یا وہ کمرہ جہاں گھر رہ کے سربراہ باقی گھر والوں سے کچھ دیر الگ ہو کر کوئی ضروری کام سر انجام دیں۔
بیٹھک کی بناوٹ کا بہت خیال رکھا جاتا تھا۔ اس کمرے میں کوئی بستر نہیں ہوتا تھا بلکہ اس میں کرسی، میز، قالین، تپائی (اس کا تذکرہ آگے آئے گا)ٹرانسٹر وغیرہ اور کچھ اور ضروری اشیاء رکھی جاتی تھیں۔ کارنس بیٹھک کا ایک اہم جزو ہوتی تھی جس پر گھر کے سربراہ کی تصاویر ، امتیازی اسناد یا دیگر یادگار اشیاء ایستادہ ہوتی تھیں۔ اس کا مقصد آنے والے مہمان کو سربراہ کا ایک مختصر تعارف کروانا یا بہ عبارت دیگر مرعوب کرنا ہوتا تھا ۔ بیٹھک کا ایک دروازہ باہر گلی میں کھلتا تھا جبکہ دوسرا دروازہ گھر کے صحن یا دوسرے کمروں کی جانب راہ نمائی کرتا تھا۔ گھر کا ایک صدر دروازہ ہوتا تھا جس سے گھر والے گلی سے گھر کے صحن یا دوسرے کمروں میں براہ ِ راست داخل ہو جاتے تھے اور اس صدر دروازے کے مساوی بیٹھک کا دروازہ ہوتا تھا۔ یعنی مرد حضرات گھر میں داخل ہوئے بغیر ہی بیٹھک میں داخل ہو جاتے تھے۔ یہ اہتمام گھر کے پردے کو مد ِ نظر رکھ کر کیا جاتا تھا تاکہ غیر محرم اشخاص گھر میں داخل نہ ہوں بلکہ گلی سے ہی سیدھا بیٹھک (مہمان خانے ) میں قدم رنجہ فرمائیں۔
شہر کے برعکس، گاؤں اور دیہات میں بیٹھک کا تصور بالکل مختلف ہوتا
تھا۔ گاؤں میں عام آدمی کے گھر چونکہ چھوٹے ہوتے تھے لہذا وہاں بیٹھک کا اہتمام گھروں میں نہیں ہوتا تھا اور مہمانوں کے رہنے کے لئے علیحدہ کمروں کا انتظام ہوتا تھا۔ صاحب ِ حیثیت اشخاص جیسے زمیندار، وڈیرے یا گاؤں کے چوہدری کی حویلیوں میں بیٹھک ہوتی تھیں لیکن ان کا نقشہ شہر کی بیٹھک سے یکسر مختلف ہوتا تھا۔ بیٹھک کا ایک بڑا دروازہ ہوتا تھا جو صحن میں کھلتا تھا۔ آگے برامدہ ہوتا تھا اور پھر مہمانوں کا کمرہ ہوتا تھا۔ اس بیٹھک (مہمان خانہ) کے کمرے کی چھتیں بہت اونچی ہوتی تھیں جن میں روشن دان ہوتے تھے تاکہ گرمیوں میں مہمانوں کو ٹھنڈک کا احساس ہو۔ کمرہ بہت کشادہ ہوتا تھا جس میں کئی مہمان اکٹھے رہ سکتے تھے۔ اس کمرے سے متصل غسل خانہ بھی ہوتا تھا۔ اس کمرے کا ایک دروازہ حویلی میں کھلتا تھا جس سے گھر والے براہ ِ راست بیٹھک میں آ جا سکتے تھے۔
تقسیمِ برصغیر كے بعد اب دیہات میں اِس طرح کی بیٹھک کا رواج رفتہ رفتہ ختم ہو گیا-برصغیر کی آزادی کے بعد زمیندار طبقہ ختم ہوا اور ان کی اولاد شہروں میں منتقل ہوگئی
وہ عمارتیں جو کبھی دیہاتوں میں دانشورانہ بحث و مباحثہ کا مرکز تھیں اب کھنڈرات میں تبدیل ہو گئیں
ایک عرب نوجوان ایک جگہ اپنے رشتے کیلئے لڑکی پر شرعی نظر ڈالنے کیلئے گیا۔لڑکا بیٹھک میں لڑکی کے باپ کے ساتھ بیٹھا تھا کہ نقاب پہنے ہوئے ایک پردے دار لڑکی اندر آئی، لمحہ بھر کیلئے لڑکے کو بغور دیکھا اور کچھ کہے بغیر واپس چلی گئی۔نوجوان نے لڑکی کے باپ سے شکوہ کرتے ہوئے کہا: اس نے تو نقاب نہیں ہٹایا اور نہ ہی میں نے دیکھا ہے ۔لڑکی کے باپ نے کہا: بیٹے، اس نے مجھے کہا تھا کہ اگر مجھے لڑکا پسند نہ آیا تو میں نے نقاب نہیں اتارنا۔
[حوالہ: نیوز رپورٹ کیٹگری اسلامی و تاریخی واقعات۔ یو آر ایل ] : (http://newsreport.pk/2019/03/29/45892/)
گھر کی بیٹھک میں اک میز پر
اک پرانی گھڑی
صبح سے شام تک
شام سے صبح تک
اور پھر اس طرح
صبح سے شام تک
شام سے صبح تک
وقت کے دائرے میں مسلسل کئی سال سے
کر رہی ہے سفر
منزل انتہا سے بہت دور ہے آج تک وہ مگر
اصل میں اس کی منزل نہیں ہے کوئی
آج میں دیر تک غور سے اس کو تکتا رہا
اور اس میں مجھے عکس انساں دکھائی دیا
[ حوالہ: گھڑی میں عکس ِ انساں۔ شاعر محبوب عالم۔ ماخذ ’’ ریختہ]
Syed Yousaf Kazmi is a medical doctor & currently working as Assistant Professor (Microbiology). As a literary enthusiast, he is documenting the common "Urdu" words used in his childhood & now on the fading end in changing days especially in Pakistan.