اردو زبان کے گم گشتہ الفاظ-۲

پڑھنے والوں کی خدمت میں آداب۔ اردو کے گم گشتہ الفاظ کی دوسری قسط کے ساتھ حاضر ہیں۔ آج ہمارا انتخاب وہ الفاظ ہوں گے جن کا تعلق گھر اور چار دیواری سے ہے۔ ہمارا  ارادہ یہ ہے کہ وہ الفاظ زیرِ بحث لائے جائیں جو ایک عرصہ دراز تک عوام الناس کے زیرِ استعمال رہے لیکن جدید ایجادات اور حالیہ رہائشی طرزِ تعمیر کے سبب  آج  ہمارے اذہان سے تقریباً محوِ ہو چکے ہیں۔ آئیے آغاز کرتے ہیں کچھ ایسے الفاظ سے جو ہمارے رہن سہن  سے ایک طویل عرصے تک متصل رہے

دروازے کی زنجیراور کنڈی، کارنس،سلفشی، برامدہ

زنجیر فارسی زبان کا لفظ ہے۔ جبکہ کنڈی ہندی زبان سے ماخوذ ہے۔  ایک طویل عرصے تک لوگ  گھروں میں لکڑی کے دروازے استعمال کرتے تھے خاص طور پر بیرونی یا خارجی دروازے۔ دروازے کے دو پٹ ہوتے تھے جنہیں کواڑ بھی کہتے تھے (کواڑ مختلف معنوں میں استعمال ہوا ہے لیکن عام فہم زبان میں اس کے معنی دروازے کے پٹ  کے ہی ہیں).

کواڑ گرچہ مقفل تھے اس حویلی کے

مگر فقیر گزرتے رہے صدا کرتے (انور مسعود)

 ان کواڑوں کو ایک مخروطی شکل کی کنڈی سے بند کیا جاتا تھا جو ایک زنجیر کے ساتھ منسلک ہوتی تھی۔ اس زنجیر کو جب لکڑی کے دروازے کے ساتھ کھٹکھٹایا جاتا تھا تو ایک نہایت دلنشیں نقرئی صدا بلند ہوتی تھی جو دور تک سنائی دیتی تھی۔ کنڈی کی شکل ایک بند کلی سے مشابہت رکھتی تھی۔    وصی شاہ نے اس کنڈی کو اپنی نظم ‘‘ عشق‘‘ میں اس طرح بیان کیا ہے ؎

A pic of “Kundi” on a wooden door. Pic Source: Yusuf Kazmi

لمبی سی باریک سی پگڈنڈی میں عشق

بیل کی گردن سے لپٹی گھنٹی میں عشق

گھر کے دروازے پر لٹکی دل جیسی اس کنڈی میں

جس میں لیلی، سسی، ہیر کا جٹی کا دل اٹکا ہو

رنگ برنگے بنٹوں میں ککڑی میں گلی ڈنڈے میں

کسی فقیر کی جھگی پر لہراتے کالے جھنڈے میں

عشق ہوا میں عشق گھٹا میں

عشق کڑنک کے ہر خوشے میں

کو کو کرتی امبواجی سے پیار جتاتی کوئل میں

ہک ہک کر کے چلتی گاؤں کی سات سریلی چکی میں

جدید دور میں لکڑی کے  دو کواڑوں پر مشتمل دروازوں کا رواج ختم ہوا۔ پھر لکڑی کی جگہ دھات سے بنے دروازے عام ہو گئے۔ لوگوں نے اپنا طرزِ زندگی بدلا تو کنڈی کی ہئیت  بھی تبدیل ہو گئی۔ کواڑ، دروازے کی زنجیر اور کنڈی   جیسے الفاظ اب تقریباً ختم ہی ہو چکے ہیں۔

کارنس

کارنس(Cornice) انگریزی زبان کا لفظ  ہے۔ انگریزی لغت میں اس کا منبع فرانسیسی لفظ (corniche)،اطالوی لفظ (Cornice) یا پھر یونانی لفظ (korōnis) ہے جس کے معنی ایک خاص طرزِ تعمیر ہے جو دیوار یا چھت سے تجاوز کرتی ایک افقی سطح ہوتی ہے۔ اس لفظ کو ادب میں انیسویں صدی میں بہت استعمال کیا گیا اور بعد میں بتدریج کم ہوتا اب اکیسویں صدی میں  بالکل ناپید ہو گیا ہے۔

Angrezi zaban ka lafz hai. Angrezi lughat me is ka manbaa fransisi cornice se hai jis ke Koronis ya phir Unani lafz Cornice ya italwi lafz Corniche. Mani ek khaas tarz tameer hai jo diwar ya chat se tajawiz karti ek ufqi satah hoti hai. Is lafz ko adab me 19swin sadi bahut istemal kia gaya aur baad me baa tadreej kam hota aur ab 21swin sadi me bilkul napaid ho gaya hai.

A Pic of Cornice with the central round Taakh. Pic Source: Tabish Akhyar

کارنس مختلف اقسام کی  ہوتی تھیں لیکن جس قسم کی کارنس کا تذکرہ یہاں مقصود ہے وہ دراصل بیٹھک کی کسی ایک دیوار سے متصل پتھر کی ایک ہموار افقی سِل ہوتی تھی جس کو دیوار سے سیمنٹ کی ایک خم دار پٹی سے سہارا دیا جاتا تھا۔ کارنس پر زیبائش کی اشیا رکھی جاتی تھیں (جیسے گلدان، فریم میں سجی تصاویر، وغیرہ)، یا پھر روز مرہ استعمال کی ضروری اجناس جیسے کتب، فائل، ٹائم پیس، وغیرہ۔ اردو ادب میں اس لفظ کا تذکرہ سب سے پہلے سوانح عمری امیر علی ٹھگ ۱۸۸۹ میں ملتا ہے۔

Karnis mukhtalif iqsam ki hoti thin lekin jis qism ki karnis ka tazkirah yahan maqsood hai wo dar asl baithak ke kisi ek deewar se mutsal pathar ki ek hamwar ufqi sil hoti thi jis ko diwar se cement ki ek khamdar patti se sahara diya jata tha. Karnis par zebaish ki ashia rakhi jati thi. jaise guldan, frame, waghaira, ya phir roz marra ke istemal ki zaruri ajnas jaise kutub, file, time piece, waghaira. Urdu adab me is lafz ka tazkirah sab se pahle sawaneh umri Amir Ali Tahak 1889 me milta hai

http://urdulughat.info/words/6001- کارنس

کارنس کا جدید عمارات میں ناپید ہو جانا ایک حیران کن بات ہے۔ کارنس بہت عمدہ تعمیراتی تصور تھا۔ جب گھروں کی تعمیر تجارتی نقطہ نظر سے کی جانے لگی تو کارنس اس میں بڑی رکاوٹ بنی کیونکہ اس کو بنانے میں  اضافی اخراجات در پیش ہوتے تھے۔ نیز، ائیر کنڈیشنرز کے آ جانے سے کمروں کا حجم چھوٹا ہو گیا اور چونکہ کارنس جگہ گھیرتی تھی، اس لئے اس کا مصرف کم ہو گیا ۔ ڈرل مشین اور جدید کیل کی فراہمی کی بدولت کارنس کی اشیاء اب دیوار کی زینت بننے لگیں۔ انگریزوں کے برِ صغیر سے چلے جانے کے ساتھ ہی یہ فن بھی  ہمارے ہاں سے رخصت ہو گیا۔ اور آج بہت کم افراد اس لفظ سے آشنا ہیں۔ is

Karnis ka jadid imarat me napaid ho jana ek hairan kun baat hai. Karnis bahut umdah tamirati tasswur tha. Jab gharon ki taamer tijarati nuqte nigah se ki jane lagi to karnis is me badi rukawat bani kyun ki is ko banane me izafi ikhrajat darpesh hote the. Air condition ke ane se kamron ka hajam chota ho gaya aur chunki karnis jagah gherti thi is lie us ka masraf kam ho gaya. Drill machine aur jadid kil ki farahmi ki wajah se karnis ki ashia ab diwar ki zeenat banne lagin. Angrezon ke baree sagheer se chale jane ke saath hi yeh fan bhi hamare yahan se rukhsat ho gaya. Aur aaj bahut afrad is lafz ke ashna hain

اداس ہو کے سجا کارنس کے پتھر پر

Udas ho ke saja karnis ke pathar par

(زمیں پہ ٹوٹ کے گرتا میں وہ گلاس نہ تھا (ظفر صدیقی

Zamin pe tot ke girta main woh glass naa tha

کل کارنس پہ دیکھ کے چڑیوں کا کھیلنا

kal karnis pe dekh ke chintion ka khelna

(بے وجہ ذہن اس کے خیالوں میں بٹ گیا (اصغر مہدی ہوش

Be wajah zehan us ke khyalon me bat gaya

https://www.rekhta.org/ghazals/tamaam-shahr-men-koii-bhii-ruu-shanaas-na-thaa-zafar-siddiqui-ghazals?lang=ur

سلفچی

بچپن میں ہمارے گھروں میں ایک لفظ ‘‘سلفچی‘‘ زبان زدِ عام تھا۔ روزانہ صبح اٹھتے ہی پہلا  جملہ یہ سنائی پڑتا۔ ’’اٹھو بچو! سلفچی سے منہ ہاتھ دھو کر ناشتا کرنے آ جاؤ۔ لغت کی کتب میں سلفچی (یا سلفشی) کے معنی ہیں ہاتھ منہ دھونے کا (portable washbasin)ایک خاص وضع کا نقل پذیر برتن 

Bachpan me hamare gharon me ek lafz “Salafchi” zuban zade aam tha. Rozana subah uthte hi pahla jumla yeh sunai padta : “Utho bacho salafchi se moonh haath dho kar nashta karne ajjao”.

A picture of Silabchi Source: TawarikhKhwani
A picture of Silabchi Source: TawarikhKhwani

یہ لفظ  دراصل سیلاب چی ہے۔ سیلاب فارسی زبان کا لفظ ہے جس  کے عام معنی طوفانی بارش سے پیدا ہونے والا پانی کا ریلا ہے ۔ ؎

آئے ہے بے کسیِ عشق پہ رونا غالبؔ

کس کے گھر جائے گا سیلابِ بلا میرے بعد

در حقیقت لفظ سیلاب بھی دو لفظوں کا مرکب  ہے۔ سیلِ آب۔ سیل بہنے والی شے کو کہا جاتا ہے جیسے؎

 جس سمت میں چاہے صفتِ سیلِ رواں چل

(وادی یہ ہماری ہے وہ صحرا بھی ہمارا    (ایک بڈھے بلوچ کی نصیحت از علامہ محمد  اقبال

اردو زبان میں لفظ چی کی اضافت کسی شے کو چھوٹا ظاہر کرنے کے لئے استعمال ہوتی ہے۔ مثلاً دیگ سے دیگچی  یا پھر صندوق سے صندوقچی۔ اسی ترکیب میں سیلاب چی کا مطلب ہو گا وہ چھوٹی جگہ جہاں پانی کا بہاؤ ہو۔  قرونِ وسطی میں ہاتھ دھونے کے لئے پانی کے طشت کو ایک اسٹینڈ پر رکھا جاتا تھا۔  ہاتھوں کو اس میں ڈبو کر صاف کیا جاتا تھا۔ جب پانی آلودہ ہو جاتا تو پھر اس کو گرا کر نیا پانی اس میں ڈال دیا جاتا تھا۔ یہ طشت اپنے اسٹینڈ سے جدا ہو جاتا تھا اور اس کی جگہ نیا طشت رکھ دیا جاتا تھا۔ عام طور پر یہ ہسپتالوں میں مریضوں کے پاس استادہ ہوتا تاکہ طبیب اس میں اپنے ہاتھ دھو سکے۔ یہی طریقہِ استعمال گھروں میں رائج ہوا۔ چونکہ برِ صغیر میں فارسی زبان کا بہت اثر تھا اسی لئے اس آلے کو سیلاب چی کہا جانے لگا۔ رفتہ رفتہ سیلاب چی، سیلفچی بنا اور پھر سلفشی بن گیا۔ جب گھروں میں نلوں کے ذریعے پانی کی ترسیل شروع ہوئی تو سیلاب چی کی جگہ مستقل بیسن آ گئے۔ لیکن عوام اسے بھی سلفشی ہی کہتے رہے۔ اس لفظ کا استعمال کم ہوتے ہوتے بالکل ختم ہو گیا۔ آج کل سیلاب چی کے لئے انگریزی کا لفظ سنک یا بیسن استعمال ہوتا ہے۔  سیلاب چی کے مترادفات (ہم معنی الفاظ) میں تسلا، چلمچی، لگن، طشت جیسے الفاظ ہیں

 ہمیں اپنی روز مرہ گفتگو میں سنک یا بیسن کی بجائے سلفشی یا سلفچی کا استعمال از سرِ نو شروع کرنا چاہیے۔ اہلِ زبان کو تخلیقِ ادب میں لفظ سیلاب چی کو فروغ دینا چاہیے۔

برامدہ

برامدہ فارسی زبان کا لفظ ہے۔ یہ بر آمد سے نکلا ہے۔ بر کے معنی ‘ باہر‘ کے ہیں (لفظ بیرون بھی اسی معنوں میں استعمال ہوتا ہے) اور آمد کے معنی ‘ آنے‘ کے ہیں۔ یعنی باہر آنا۔  لہذا برامدہ اس جگہ کو کہتے ہیں جو مکان سے باہر آنے پر موجود ہو۔

A Pic of Arched Verandah lined by timber roof. Pic Source: Tawarikh Khwani

برامدہ  دراصل ‘‘مکان کے سامنے بغیر دروازوں کا کمرہ‘‘ کے معنی میں استعمال ہوتا تھا۔ صحن(مکان کا ہو حصہ جو بغیر چھت کے ہو) اور گھر (مکان کا چھت والا حصہ) کے درمیان ایک مستطیل رقبہ ہوتا تھا جس پر کم اونچائی والی چھت ہوتی تھی۔ گھر والے کمروں سے نکل کر پہلے برامدے سے گزرتے اور پھر صحن میں آتے۔ سن ۸۰  کی دہائی تک ہر چھوٹے بڑے گھر میں برامدہ ہوتا تھا لیکن آج کل صرف بڑی کوٹھیوں تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ انگریز جب برِ صغیر آئے تو انہوں نے برامدے کے تصور کو فروغ دیا اور جتنی بھی سرکاری عمارات بنوائیں ان میں برامدے ضرور بنوائے۔ اسی لئے انگریزی زبان میں برامدے کے لیۓ ویرانڈا لفظ  استعمال ہوتا ہے۔ برامدہ انگریزوں کے لئے ایک پل کا کام دیتا تھا جسے وہ محکوم عوام سے رابطے کے لئے استعمال کرتے تھے

(Reference: Domestic Interiors: Representing Homes from the Victorians to the Moderns edited by Georgina Downey)

برامدہ ایک مفید خیال تھا۔ گھروں میں اس کی بناوٹ کا خاص خیال رکھا جاتا۔ سردیوں میں یہ سن روم   کا کام دیتا اور گرمیوں میں سایہ دار جگہ کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ بارش ہو، ژالہ باری، یا پھر برفباری،  بچے بڑے سب برامدے میں کرسیوں پر بیٹھ کر چائے کے ایک کپ کے ساتھ اس موسم سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ گھر کے بزرگ برامدے میں بیٹھ کر صبح سویرے اخبار پڑھتے۔ رات کو اگر بارش آ جاتی تو گھر والے چار پائیاں  صحن سے اٹھا کر برامدے میں ڈال کر سو جاتے۔  سردیوں کی آمد سے پہلے کے موسم میں بھی رات کو برامدے میں چار پائیاں رکھی جاتیں کیونکہ زیادہ سردی کی وجہ سے رات کو کھلے آسمان تلے سونا بہت مشکل ہوتا تھا۔ لوگوں نے سیکیورٹی خدشات کے پیشِ نظر برامدے بنانا ترک کر دئیے۔ برامدے کا تصور اب کار پورچ  (Car porch) تک محدود ہو چکا ہے۔ برامدہ کے مترادفات میں لفظ ڈیوڑھی، دہلیز، غلام گردش، راہداری وغیرہ شامل ہیں لیکن یہ تمام الفاظ برامدہ کے حقیقی متبادل نہیں۔

‘‘ایک بار داغ اپنے شاگرد کنور اعتماد علی خان کے گھر گئے، مکان کے برامدے میں جگہ جگہ پنجرے لٹکے ہوئے تھے جن میں طوطے، بلبلیں، اور خوش نوا پرندے بند تھے۔ کنور صاحب کے چھ سالہ بچے نے ایک بلبل نکال کر اس کا پاؤں ڈور سے باندھ کر اڑانے لگا، دونوں بچے کی اس حرکت کو دیکھ رہے تھے۔ کنور صاحب پر گو شاعر تھے فوراً داغ کی طرف دیکھ کر مصرع پڑھا:۔ پر کے بدلے پاؤں باندھا بلبلِ ناشاد کا

مرزا نے فوراً گرہ لگائی:۔ کھیل کے دن ہیں لڑکپن ہے ابھی صیاد کا‘‘

+ posts

Syed Yousaf Kazmi is a medical doctor & currently working as Assistant Professor (Microbiology). As a literary enthusiast, he is documenting the common "Urdu" words used in his childhood & now on the fading end in changing days especially in Pakistan.