( شاہ   ابٌن بدر  چشتی   رحمتہ  الله    علیہ ( امروہہ ا

امروہہ  شمالی ہندوستان کی ایک نہایت زرخیز  بستی ہے جس کو علمی ادبی اور روحانی حوالے سے تمام برصغیر میں ایک خاص مقام  حاصل   ہے  اس میں دو رائے نہیں کہ  یہ چھوٹی سی بستی اسلامی ہند کی ثقافتی زندگی میں خاص اہمیت کی حامل رہی ہے۔ اس سرزمین کو  انگنت علماء فضلاء ، اور بزرگان دین نے اپنا مسکن بنایا اور علمی ادبی سرگرمیوں سے اور ارشاد و تلقین سے ہر زمانے میں  ایک ہنگامہ گرم رکھا۔

یوں تو امروہہ میں بہت سے قدیم بزرگوں کی آمد اور انکے کارناموں کا ذکر تاریخ کی کتابوں میں موجود ہے بالخصوص شاہ ولایت  حضرت شاہ شرف الدین  نقوی سہروردی  رح  مگر آج ہمارا موضوعِ سخن دسویں صدی ہجری کے ایک ممتاز بذرگ  جو بدرمنیر کی طرح آسمان عرفان پر نمودار ہوئے اور جنہوں نے  اس پوری فضا میں  ایک  خاص روشنی اور توانائی پیدا کی اور جن کی صحبت بابرکت حاصل کرنے لئے  دور دور سے تشنگان معرفت آئے اور جنہونے ایک زمانے کی تریت کی،  میری مراد حضرت شاہ ابن بدر چشتی رحمتہ اللہ علیہ سے ہے جو امروہہ میں آسودہ خواب ہیں !.

حضرت شاہ ابٌن بدر چشتی نے دسویں صدی ہجری میں امروہہ میں مسند ارشاد قائم کی اور ایک بڑا مرکز قائم کیا  مشکل  یہ ہے کہ انکے تفصیلی حالات تزکروں میں نہیں ملتے  البتہ انکا  مختصرا  ذکر تقریباً  ہر اہم کتاب میں ہے مثلاً  بدایونی کی منتخب التواریخ اور غوثی شطاری کی گلزار ابرار میں اور اس  سے  معلوم ہوتا کہ اپ کی شہرت دور دور تک پھیلی ہوئی تھی ، مولانا غلام علی آزاد بلگرامی نے ان کو مشاہیر اولیاء میں شمار کیا ہے اور عھد اکبری کا مشہور مورخ  ملا عبد القادر بدایونی ، جو آپ کی خدمت میں حاضر ہو چکا تھا  آپ کی اتباع سنت کی پابندی کی تعریف کی ہے، تحریر کرتا ہے

سالک مجذوب بود ، باوجود  این  حالت ، دقیقہ از دقائق شریعت مطہرہ ازو  فوت نہ شدے

اخبار الا خیار میں شیخ عبدالحق محدث دہلوی لکھتے ہیں”  از جملہ مریدان  و خلفائے شیخ علاءالدین شیخ ابن امروہہ مردے عزیز و مسن و صاحب حال و مجذوب شکل بود

پیدائش 

کتب تواریخ میں آپ کی  سنہ  پیدائش  کا کہیں ذکر نہیں ملتا اکثر کتابوں میں اتنا ہی ملتا ہے ہے کہ آپ نے بہت  لمبی عمر پائی اور خاندانی روایت کے مطابق آپ کی عمر  ایک سو چالیس سال کی ہوئی ،  اخبار الاخبار میں بھی  ہے ” مردے عزیز و مسن و متبرک و صاحب کمال بود، اگر  آپ  کے سنہ وفات  سے حساب لگایا  جائے  تو آپ  کی پیدایش  ٨٤٠  سے  ٨٦٠  ھ کے درمیان  کی  ہونے  کا  امکان ہے

نام و نسب

آپ کا نام نامی سید عبداللہ عرف ابٌن اور کنیت ابو الفتح  ہے  ، آپ کے مرشد نے اپ کو بدر چشتیاں کہا جو آپ کے نام  کا حصہ بن گیا بلکہ اصل نام سے زیادہ معروف ہے ! 

نسبا آپ سادات رضوی کرمانی  خاندان  کے  فرد  تھے ، آپ کے بزرگوں میں سے اول سید محمود کرمانی بن سید شہاب الدین کرمانی ساتویں صدی ہجری  میں ہندوستان تشریف لائے  اور خواجہ قطب الدین بختیار کاکی سے تعلق ارادت قائم کیا اور  اپنی اقامت کے لیے ضلع برن (جسے آج بلندشہر کہتے ہیں) میں کالی ندی کے کنارے ایک موضع  کا انتخاب کیا جہاں آپ کی  اولاد  اب تک رہتی چلی آتی ہے ، اس کا نام گٹھاولی ہے اور اپ کا مزار بھی وہیں موجود ہے ، آپ کا لقب مالامال بھی مشہور ہے تھا جس کی وجہ سے اس جگہ کو مالا مال گڑھ بھی کہا جاتا تھا انہیں سید محمود کے ایک بھائی سید طیفور تھے جن کی اولاد سے شاہ  ابن  بدر چشتی  ہوئے ہیں.

تعلیم

حضرت مخدوم سید بدر چشتی کے والد سید احمد گنج  رواں   اپنے عہد کے اکابر علماء میں شمار ہوتے تھے ،حضرت بدر چشتی نے ابتدائی تعلیم اپنے والد سے ہی حاصل کی اور نو سال کی عمر میں قرآن مجید بھی حفظ کر لیا تھا ، 14  سال کی عمر تک پہنچتے  پہنچتے  عربی فارسی ادبیات اور دیگر علوم حاصل کیے اور اس کے بعد ملتان ، لاہور میں تحصیل علوم کی غرض سے مقیم رہے آخر کار دہلی میں مولانا ابراہیم سے احادیث و تصوف کی کتب پڑھیں اور پھر گھر واپس اکر والد ماجد کی جگہ درس و تدریس میں مشغول ہو گئے ، اپ کی پہلی اہلیہ کی وفات کے بعد آپ کو وہ موقع میسرآیا  کہ آپ خالصتاً تلاش حق کے لئے خود کو وقف کر سکیں۔ ،  چنانچہ  آپ تمام مال و اسباب و ترکہ آبائی کو تقسیم کر کے  حج  کے  ارادہ  سے حجاز مقدس کی طرف روانہ ہو گئے-حجاز مقدس کے دورانِ قیام میں ایک رات آپ کو خواب میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی فرمایا کہ تمہارا حج ہوگیا لہذا دہلی کی طرف واپس جاؤ  اس کے بعد آپ نے دہلی کا رخ کیا اور غیبی طور پر پر  آپ فرید ثانی حضرت مخدوم شیخ علاءالدین زندہ پیر چشتی  اجودھنی رح کی خدمت میں حاضر ہوئے جو بابا فرید الدین گنج شکر کی اولاد میں سے تھے اور انہیں کے سلسلے سے مستفیذ و مجاز ت تھے اور اپنے عہد کے بڑے ممتاز مشائخ میں شمار ہوتے تھے،  حضرت شیخ علاء الدین  آپ کو دیکھ کر مسکرائے ،معانقہ کیا اور پہلی ہی ملاقات میں بیعت سے مشرف  فرما کر اذکار کی تلقین فرمائی , کچھ عرصے آپ حضرت زندہ پیر فیل مست کی صحبت میں رہے اور تکمیل سلوک کے بعد مرشد نے اپ کو خرقہ خلافت عطا فرمایا ،ںاپنی دستار اپ کے سر پر رکھی اور اپ کے متعلق ” بدر چشتیاں خواہی بود ” کے الفاظ ارشاد فرمائے اور اگرہ جانے کا حکم دیا ، شیخ  علاءالدین کے ایک مرید سید سلطان بہرائچی کو اشکال پیدا ہوا کہ مرشد نے اس قلیل مدت میں اس نوارد کو خلافت سے سرفراز فرمایا آخر اس کی کیا وجہ ہے ؟  اس خطرہ کےآتے   ہی حضرت زندہ پیر نے سید سلطان کی طرف طرف متوجہ ہو کر فرمایا کہ یہ درجہ کمال حاصل کرکے آئے تھے اور جن کے حکم سے آئے تھے انہی کے حکم سے جاتے ہیں اس میں ان کا اور میرے اختیار کا کوئی دخل نہیں یے 

اگرے میں اس وقت ایک کامل بزرگ شیخ علاءالدین مجذوب (المتوفی 953 ھ)  جن کو عرف عام میں علاول بلاول کہتے تھے موجود تھے اور اگرے کے صاحب ولایت تھے ، آگرہ پہنچ کر حضرت ابن قدرے علیل ہوگئے اور حضرت علاول بلاول  سے   ملاقات کی ، حضرت نے اپ کی  شفا  و  صحت  کی  دعا   کی  اور   امروہہ جانے اور وہاں سلسلہ جاری کرنے کی ہدایت فرمائی 

سلسلہ بیعت

حضرت شاہ  ابن بدر چشتی عن شاہ علاء الدین فیل مست عن شیخ  تاج الدین عن شیخ عبد الصمد عن شیخ منور عن شیخ فضیل عن شہخ معز الدین سلیمان عن شیخ علاء الحق یوسف عن شیخ  بدر الدین سلیمان عن شیخ فرید الدین گنج شکررح

سیرت

امروہہ پہنچ کر حضرت بدر چشتی نے قیام کے لئے وہی جگہ پسند فرمائیں جہاں آج بھی آپ کی خانقاہ بنی ہوئی ہے آپ نے اسی جگہ اپنا درس جاری کیا یہاں سے علوم معرفت کے لاتعداد جویا سیراب ہو کر نکلے آپ نے تصوف اور سلوک کی بعض نادر عربی کتابوں کا فارسی میں ترجمہ کرایا چنانچہ 944ھ  مولانا رکن الدین عباسی نے جو عہد اکبری کے مشاہیر علماء میں شمار ہوتے تھے حضرت کی ایماء پر ایک تصنیف کا فارسی میں ترجمہ کیا کیا جسکا حوالہ تاریخ امروہہ کی جلد چہارم  میں  مزید تفصیلات  دیے بغیر کیا گیا ہے

عہد اکبری کا مشہور مورخ ملا عبد القادر بدایونی اپنی کتاب “منتخب التواریخ” میں بیان کرتا ہے،


سید  ابٌن  امروہہ جس زمانے میں میں میاں شیخ داؤد سے مل کر پنجاب سے واپس ہوا تھا اور امروہہ کے راستے بدایوں جا رہا  تھا  تو حضرت کی خدمت میں پہنچا  تھا  اس  وقت وہ کسی کی طرف خاص طور سے متوجہ ہوۓ بغیر کلام پاک کی ایک آیت بیان کر رہے تھے کبھی کبھی میری طرف دیکھ لیتے تھے۔  انھوں نے اس وقت جزا و صبر کرنے والوں کے اجر کی فضیلت بیان کی اور اس سلسلہ میں آیت ‘والباقیات الصالحات’ میری طرف دیکھ کر تلاوت کی۔  اس تلقین کا مطلب جلد ہی ظاہر ہوا۔ ان کا اشارہ کسی مصیبت کی طرف تھا۔  چنانچہ میری ایک بچی تھی جس کو میں بہت چاہتا تھا۔  میں ابھی اس سفر میں تھا کہ وہ بدایوں میں فوت ہو گئ ان کے وہ تسلی آمیز الفاظ غالباً میرے ہی لیے تھے۔  والله علم

حضرت شاہ محمد فائق سرہندی سے منقول ہے کہ حضرت مخدوم بدر چشتی شروع سے ہی حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال اور افعال کے جویا رہتے تھے اور آپ کی دلی آرزو تھی تھی کہ ہر امر میں شریعت کا اتباع کیا جائے آئے اور آپ پنج وقتہ نمازوں کی طرح آپ نماز تہجد کے بھی اس قدر پابند تھے کہ جس روز آپ کی والدہ محترمہ کا انتقال ہوا اس روز تدفین سے فارغ ہونے کے بعد فرمایا کہ نو سال کی عمر میں حضرت والد ماجد نے مجھ کو نماز تہجد شروع کرائی تھی اس دن سے لیکر صرف آج قضاء ہوئی ہے

ایک  موقع  پر آ پ  نے   فرمایا  ” دنیا عالم اسباب ہے اور تمام اسباب کا سلسلہ مسبب الاسباب پر ختم ہوتا ہے ،ہر اثر کی نسبت مجازی طور پر کسی سبب کی طرف ہے مگر مؤثر حقیقی سوائے ذات باری تعالٰی کے کوئی نہیں شرک اسباب   شرک کے اقسام میں سے ایک  قسم ہے اس لئے انسان کو لازم ہے کہ جو فیض اسکو پہنچے   یا  جو نعمت اس کو حاصل ہو ، منجانب اللّٰہ جانے ،خواہ ظاہری سبب کچھ بھی ہو

چوں آں ذات محیط جملہ اشیاء است
بہر شکلے___ ادا ر ا می شناسم

ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو قرآن اور تفسیر سے خاص شغف تھا ، مولانا عبد الحلیم نام کے ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ مجھے چند فلسفیانہ شبہات تھے اور میں جب نماز جمعہ کے لئے اس چھوٹے سے گاؤں میں حاضر ہوا جہاں پر حضرت شاہ ابن رح اپنے سفر امروہہ کے دوران قیام پذیر تھے ، تو اپنے نماز جمعہ کے بعد آیہ کریمہ ھو الاول والآخر والظاہر والباطن کی ایسی تفسیر بیان فرمائی کہ اہل علم حیران ہو گئے اور میرے تمام شکوک رفع ہو گئے  

آپ سے بہت خوارق و کرامات کا ظہور ہوا  جیسا کہ بدایونی کہتا ہے ” خوارق از و بسیار نقل می کنند” ، لیکن ہمارے نزدیک آپ کی متشرع اور پابند سنت حیات مبارک بجائے خود ایک کرامت ہے 

اپ کا ذکر مختصراً مراۃ الاسرار اور تاریخ  اولیاء ،اخبار الاخیار، طبقات اکبری ، گلزار ابرار، معارج الولایت ، بحر زخار جیسی کتابوں میں پایا جاتا ہے مگر تفصیلات کسی جگہ نہیں ملتی ،کہیں کہیں آپ کا ذکر بھی ہے کہیں کہیں صرف نام پر ہی اکتفا کیا گیا

تاریخ اولیاء جلد روم میں مؤلف امام الدین احمد گلشن آبادی لکھتے ہیں آپ سالک و مجذوب ہیں بڑے صاحب کمالو وجد و حال ہیں باوجود حالت جذب کے شریعت کے حکم کو کبھی نہ توڑا اور کشف و کرامات و خوارق عادات آپ سے بہت جلوہ گر ہوئے وفات 987 ھ میں واقع ہوئی قبر آپ کی امروہہ میں ہے

وفات

آپ کی وفات ۵،  ذی قعدہ 987 ھ  میں ہوئی ، گو چند کتابوں میں مختلف تواریخ تحریر ہیں تاہم ہم نے ملا عبدالقادر بدایونی کی دی ہوئی سنہ پر اعتماد کیا ہے ، آپ کو شہر امروہہ کی آبادی سے جانب جنوب تالاب کے کنارے  کو سپرد خاک کیا گیا  بعد میں حضرت مخدوم کے ایک ہندو معتقد نے کثیر رقم خرچ کرکے خوبصورت نقشین پتھروں کا مقبرہ بنوایا  اس کی تکمیل کے بعد اس کے دل میں خیال گزرا کہ خرچہ اندازہ سے زیادہ ہوگیا ہے اس خیال کے آتے ہی تمام عمارت منہدم ہو گئی جس کے بڑے بڑے نقشین  پتھروں کو بعد میں حضرت مخدوم کے نبیرہ حضرت شاہ مقصود محمد نے ترتیب دے کر چبوترے کی صورت میں تبدیل کردیا

آپ کے خلفاء میں شاہ عالم کرمانی  انہوں نے آپ کے ملفوظات بھی جمع کئے تھے اور شاہ  دانا بریلوی, شاہ برخوردار رامپوری اور  شیخ طاہر بنگالی کے نام لئے جاتے ہیں ، ان سب  پر  الله  کی  رحمتیں  ہوں !

اولاد

حضرت مخدوم بدر چشتی کی پہلی شادی آپ کے آبائی وطن گٹھاولی میں ہوئی تھی جس سے ایک صاحبزادے شاہ سیف الدین پیدا ہوئے  ان کی   اولاد  وہیں سکونت پذیر  رہی  بعد میں حضرت مخدوم نے تین شادیاں اور  کیں پہلی سے حضرت شاہ محمد ہوئے دوسری سے شاہ احمد، شاہ صدر الدین اور تیسرے سے حضرت شاہ نور الدین، شاہ قطب الدین،  شاہ بدر الدین اور  شاہ  ابو القاسم  ، ان میں سے شاہ بدر الدین کے علاوہ تمام کی  اولاد  امروہہ میں اور بواسطہ امروہہ مختلف مقامات میں موجود ہیں ،آپ کی اولاد میں اس قدر سر علماء صلحاء فضلاء اور مشاہیر گزرے ہیں کہ ان کا احاطہ ناممکن ہے حکیم محمد بخش ، حکیم سید عسکری ، سید احمد حسن محدث وغیرہ آپ ہی کی اولاد میں سے تھے اور موجودہ دور میں پاکستان میں مقیم اردو کے مشہور شاعر ڈاکٹر خورشید رضوی  بھی حضرت مخدوم کی اولاد سے ہیں

اختمام  کرنے  سے  پہلے  جی چاہتا ہے کہ  حضرت  کے  پیر  و مرشد  شیخ  علا الدین  فیل  مست  چشتی  کا  بھی  ذکر  تبرکا   کر  دیا     جائے

شیخ علاء الدین اجودھنی قدس سرہ

آپ کی ظاہری اور باطنی  ہر دو   لحاظ  سے  بابا  صاحب شیخ فرید گنج شکر قدس سرہ کی  اولاد  سے  ہیں  ۔آپ کے والد بزرگوار کا نام نورالدین تھا۔بیعت اور   خلافت  اپنے  دادا  شیخ  تاج الدین  بن شیخ عبد الصمد  ابن شیخ منور سے بیعت کی۔ آپ کو  فیل مست اور   فرید  ثانی   اور   گنج  شکر وقت بھی کہتے تھے، نہایت  مرتاض  اور  ذی  شان  بزرگ  گزرے  ہیں  ، علی اخلاق اور پسندیدہ اوصاف کے حمالک  تھے۔ باطنی  طور  پر  آپ   خواجہ قطب الدین بختیار  کاکی  سے مستفیض  تھے ،  آپ کی ولادت 872ھ  اور وفات بہ  روایت  گلزار  ابرار  947ھ  میں  ہوئی۔ مزار  آپ  کا   دہلی میں  ہے  ، مضمون  کا   اختتام  ہم اس شعر سے کرتے ہیں جو حضرت شیخ علا الدین فیل مست نے شاہ ابن بدر چشت کو رخصت کرتے ہوئے  پڑھا  تھا :

در پس ہر گریہ آخر خندہ ایست
مرد آخر بین مبارک بندہ ایست

حوالہ  جات

  • اخبار  الاخیار   – عبد الحق  محدث  دہلوی
  • مرا ة  الاسرار   – عبد الرحمن  چشتی
  • گلزار  ابرار  – غوثی  شطاری
  • منتخب  التواریخ – عبد القادر بدایونی
  • تاریخ  امروہہ   – محمود  احمد  عباسی
  • معارج  الولایت  – غلام  معین الدین  عبدللہ  خویشگی
  •  طبقات  اکبری   – نظام  الدین  احمد
  • تاریخ   مشائخ  چشت    – خلیق  احمد  نظامی
  • تاریخ  سادات  امروہہ  – نہال احمد  نقوی
  • بحر  ذخار   – وجیہ الدین  اشرف    
  • تذکرہ  بدر  چشت  –  خورشید  مصطفیٰ  رضوی
+ posts

Khalid Bin Umar is a history buff who writes on Micro-history, Heritage, Sufism & Biographical accounts. His stories and articles has been published in many leading magazines. Well versed in English, Hindi, Urdu & Persian, his reading list covers a vast arrays of titles in Tasawwuf & Oriental history. He is also documenting lesser known Sufi saints of India