سر تاج الاولیاءمجدد ِ اعظم محی الدین حضرت عبد القادر جیلانی علیہ رحمہ


سر تاج الاولیاءمجدد ِ اعظم محی الدین حضرت عبد القادر جیلانی علیہ رحمہ
سر تاج الاولیاءمجدد ِ اعظم محی الدین حضرت عبد القادر جیلانی علیہ رحمہ

Walter’s photograph An aerial view Sheikh Abdul Qadir Jilani mosque, Baghdad, 1925

Walter’s photograph An aerial view Sheikh Abdul Qadir Jilani mosque, Baghdad, 1925
smartphonehoesjessee this websitei thought about this

قارئین گرامی ! جس طر ح عوام النا س نے ربیع الاول کو حضور(ص) کا مہینہ قرار دے رکھا ہے، با لکل اسی طر ح ربیع الثا نی کو حضرت عبد القاد رجیلا نی علیہ رحمہ کا مہینہ قرار دے رکھا ہے اور ا ُس کو با رہ وفات اگر عوامی زبا ن میں کہتے ہیں تو اِس کو گیار ہویں شریف کا مہینہ انکی مناسبت سے کہتے ہیں ۔اور اس طر ح فا ئدہ یہ ہوا کہ ایک کے بجا ئے امت کو دو مہینے مل گئے ۔یہ دونو ں مہینے ہی ذکر اور فکر میں گزر نے چا ہیئے ۔مگر ظلم یہ ہے کہ ا س میں بھی سوا ئے ان کی کرا ما ت کے ذکر کے اور کچھ نہیں ہو تا۔ جس کا انہو ں نے کبھی ا پنے خطبا ت میں سوا ئے اپنی مخصوص محفلو ں کے ذ کر نہیں فر مایا۔وجہ یہ تھی کہ ان کی زندگی کہ کئی پہلو تھے ایک عوام النا س اور علماءکے لیئے ، تو دوسرا طا لبان ِ معرفت کے لیئے۔ لہذا انہو ں نے دو نوں کو کبھی گڈ مڈ نہیں کیا ۔

قارئین گرامی ! جس طر ح عوام النا س نے ربیع الاول کو حضور(ص) کا مہینہ قرار دے رکھا ہے، با لکل اسی طر ح ربیع الثا نی کو حضرت عبد القاد رجیلا نی علیہ رحمہ کا مہینہ قرار دے رکھا ہے اور ا ُس کو با رہ وفات اگر عوامی زبا ن میں کہتے ہیں تو اِس کو گیار ہویں شریف کا مہینہ انکی مناسبت سے کہتے ہیں ۔اور اس طر ح فا ئدہ یہ ہوا کہ ایک کے بجا ئے امت کو دو مہینے مل گئے ۔یہ دونو ں مہینے ہی ذکر اور فکر میں گزر نے چا ہیئے ۔مگر ظلم یہ ہے کہ ا س میں بھی سوا ئے ان کی کرا ما ت کے ذکر کے اور کچھ نہیں ہو تا۔ جس کا انہو ں نے کبھی ا پنے خطبا ت میں سوا ئے اپنی مخصوص محفلو ں کے ذ کر نہیں فر مایا۔وجہ یہ تھی کہ ان کی زندگی کہ کئی پہلو تھے ایک عوام النا س اور علماءکے لیئے ، تو دوسرا طا لبان ِ معرفت کے لیئے۔ لہذا انہو ں نے دو نوں کو کبھی گڈ مڈ نہیں کیا ۔

لیکن اس کے بر عکس واعظین کاسا را زور کرامات پر ہی رہتا ہے ۔جس سے عوام الناس کو کو ئی فا ئدہ نہیں پہنچتا ۔اس میں کو ئی شک نہیں کہ وہ صا حب ِ کشف و کرا ما ت تھے اور اس کا سب سے بڑا ثبو ت جو ملتا ہے وہ ابن ِ کثیر کے یہا ں بھی ہے تحریر فر ما تے ہیں کہ “ عبد القادر جیلا نی کی کرا ما ت اس کثر ت اور تواتر کے سا تھ ملتی ہیں ان کی تر دید نہیں کی جاسکتی اور انہو ں نے حضور( سیرت کی کتاب(البدایہ النہایہ ) میں بھی ان کوصاحب کشف بزرگ لکھا ہے، نیز یہ کہ لوگوں نے ان سے بڑا فا ئدہ اٹھا یا  ً مگر جیسا کہ ہم پہلے عرض کر چکے ہیں کہ عوا می مجا لس میں انہو ں نے اس کو کبھی مو ضو ع نہیں بنا یا ،عوامی مجا لس میں ان کو مو ضو ع بنا نا با لکل ایسا ہے جیسا کہ کسی پہلے درجہ کے طا لب علم کے سا منے پی ایچ ڈی کا مقا لہ پڑھا جائے ۔اس کو اقبا ل نے بڑی خو بصو رتی سے اپنے ایک شعر میں سمویا ہے  اقبا ل یہا ں ذکر نہ کر لفظ ِ خو دی کا  مو زوں نہیں مکتب کے لیئے ایسے مقا لا ت ً ہما رے ایک دو ست نے اس کو ایک مر تبہ حلقہ تفسیرمیں ،قرآن سے ہی ثا بت کیا کہ یہ عوامی مضمو ن نہیں ہے۔ اس لیئے جو اسے نہیں سمجھتے ہو ں انہیں منہ کھولنے کی گنجا ئش نہیں ہے !اور نہ عوام الناس کو سمجھنے کی تکلیف دی جا ئے، ورنہ وہ را ستہ بھٹک جا ئیں گے۔ اور اس کی مثا ل انہو ں نے حضرت مو سٰی علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کے قصے سے دی ۔ ان کا استد لا ل وہی تھا جو حضرت خضر نے حضرت مو سٰی سے فر ما یا کہ “ آپ چپ کیسے رہ سکتے تھے ۔جب جا نتے ہی نہیں تھے کہ میں نے یہ تمام افعال اللہ کی مر ضی کے مطا بق انجام دیئے “تو یہا ں بھی صورت حا ل یہ ہی ہے کہ جو منکر ہیں۔ ان کی سمجھ میں ہی نہیں آسکتا ،اور جو عوام ہیں، یہ مسا ئل ان کی سمجھ سے یو نہیں با ہر ہیں۔ اور وہ مو جو دہ دور کے سجا دہ نشینو ں کو ان پر قیا س کر کے ان کو بھی کو ئی گو شہ نشین اور مر یدو ں کے نذرا نو ں پر گزر کر نے والا سجا دہ نشینوں جیساقیا س کر لیتے ہیں ۔اور اس کا م پر پر دہ پڑجا تا ہے، جس کی بنا پر وہ محی الدین کہلا ئے یعنی “ دین کو زند ہ کر نے والے  “اور یہ مہینہ بھی اسی کشمکش کا شکا ر ہو جا تا ہے۔ بجا ئے استفا دہ حاصل کر نے کے ،جو منکر ہیں اتنا حد سے تجا وز کر جا تے ہیں کہ اسے شرک کہتے ہیں اور دوسروں کااس مہینہ میں سا را زور اسی پر ہو تا ہے کہ ان کی کرا ما ت کیا تھیں ؟ جبکہ وہ خود اپنی کتاب غنیة الطا لبین میں اس کو پا نچو یں در جہ کی چیز فر ما تے ہیں ۔اور یہ کہ“ یہ اللہ اور بندے کے در میا ن پردے کا دور ہو تا ہے، جب وہ اس سے بھی گزر جا تا ہے تب اسے عرفا ن حا صل ہو تا ہے ؟ جبکہ دوسرا گروہ اس کو منا نے ان کے نام پر نذرونیا ز اور جا نور پا لنے اور ذبح کر نے کو شرک قرار دیتا ہے اور بہ زعم ِخود تقویٰ کی بنا پر ایسی با توں پر لب کشا ئی کر تا ہے،جن کا اس کو علم ہی نہیں ہے اور ان تما م غلط کا ریو ں کا جو عوام ان کے نا م پر کر تے ہیں ذمہ دا ر قرار دے کر اپنے آپ تہمت لگانے کا مر تکب ہوتا ہے ۔اور اس پر ظلم یہ کہ استدلال کے لیئے سورہ بقر کی وہ آیت جس میں ۔۔ مااھل بہ لغیر اللہ ۔۔۔ الخ کا ذکر آیا ہے پیش کرتا ہے ۔ اس آیت کی تفسیر حضرت عبدا للہ ابن ِ مسعود نے فرمائی ہے ما ذبح للطوا غیت ۔۔۔ یعنی جو جانور طاغو توں کے نام پر ذبح کیا جا ئے وہ حرام ہے ۔اس تفسیر کی روشنی میں کو ئی کہہ سکتا ہے کہ کو ئی مسلمان کسی طا غوت (کسی شیطا نی طا قت )یعنی دیوی دیو تا وغیرہ کے نام پر ذبح کر سکتا ہے ؟ با لا خر یہ اگر پا لے ان کے نام پر گئے تھے تو بھی ان کو یہ مقام اسلام کے اتبا ع، رسول اور وحدانیت کی بنا پر ملا نہ کہ( نعوذباللہ) طاغوت کی پیرو ی کی بناپر۔اورنہ ہی ان کے ما ننے والے ایسے سمجھے جاسکتے ہیں ! لہذا یہ اللہ ہی کی محبت میں پا لے جا تے ہیں اور اللہ ہی کے نا م پر ذبح کیئے جا تے ہیں ۔ اور پھر اگر بیچ میں یہ لغزش مان بھی لی جا ئے، تو اس حدیث کی بنا پرجو اہل ِ دوزخ اور جنت کے بار ے میں ہے ۔ ۔۔۔وانماالاعما ل بخواتیمھا ۔ (کہ ثواب کا دارومدار عمل کے مرتبہ نتا ئج پر ہے ) اگر ان کے نا م پر بکرا پالا بھی تھا تو بھی آخری نتیجہ یہ ہے کہ وہ ذبح اللہ ہی کہ نام پر ہوا ۔ اور یہ دو نوں طرف لا علمی ہے ۔جو ایسا کرا تی ہے اگر دو نوں عقیدت یا تعصب کی عینک اتا ر کر دیکھیں، تو ان کا نو را نی چہرہ نظر آ جائیگا ۔جنہوں نے بگڑی ہو ئی امت کو سنبھا لنے کی کو شش کی اور آج تک ان کا صحیح اتبا ع کر نے والے سا ت سو سال سے فیض پاتے آرہے ہیں ۔جس کی وجہ سے وہ محی الدین کہلا نے کے مستحق بنے ۔ہم آپ کو وہ روا یتی با تیں سنا نے کے بجا ئے جو آپ پہلے ہی بہت سن چکے ہیں، ان کی زند گی کی اصل شبیہ پیش کر رہے ہیں ۔جس کے لیئے اللہ تعا لیٰ نے انہیں اسوقت بھیجا تھا ۔پہلے تو ہم آپ کو اس دور کے با رے میں بتا نا چا ہیںگے کہ جب انہو ں نے آنکھ کھو لی تو وہ دو ر تھا جس میں سلجو قیوں نے ابو بہ کو شکست دے کر عبا سی سلطنت دو با رہ قا ئم کر لی تھی ۔مگر پور اعا لم ِ اسلام آج کی طر ح سیکڑوں با د شا ہتو ں میں بٹا ہوا تھا اور سب ایک دو سرے سے جو ع الا رض میں مبتلا ہو نے کی سبب دست بہ گر یبا ں تھے۔ جبکہ خلیفہ کا کا م اتنا رہ گیا تھا کہ جو جیت جا ئے اس کو سند ِ با د شا ہی عطا کر دے ۔گو اس وقت جو خلیفہ تھا وہ دیندا ر تھا اور علما ءاور صو فیاءدو نوں کا احترام کر تاتھا۔ اور سا تھ لے کر چلنے کی کو شش بھی کر تا تھا ، مگر عوام اور رؤسا ءگمرا ہ ہو چکے تھے لہذا وہ ہر ایک کے کنٹرول سے با ہر اور سا زشو ں میں مصروف تھے۔ اور آج کی طرح ہر ایک باد شا ہ ان کو را ضی رکھنے اور اپنے تخت کو بچا نے میں مصروف رہتا تھا ۔ ایک طر ف شا م پر عیسا ئی حملہ آور تھے تو دوسری طر ف با طنی فر قہ کے سر برا ہ حسن بن سبا ح کے معتقدین تبا ہی مچا ئے ہو ئے تھے ۔ جو منہ کھو لتا، چا ہے وہ عا لم ہو یا با د شاہ اور سردار، وہ اپنے فدا ئین سے اسے قتل کروا دیتے اسی دوران انہوں نے ظلم یہ کیا کہ نظا م الملک طو سی  کو جو کہ بہت بڑا صا حب علم اور بہترین منتظم تھا قتل کرا دیا۔ اس طر ح سلجو قی سلطنت بھی انتشار کا شکا ر ہو گئی ۔ایسے میں حضرت عبد القادر جیلا نی (رض) کی پیدا ئش ایک انتہا ئی بزرگ گھرا نے میں ہو ئی اور بچپن سے ہی ان کے جو ہر کھلنے لگے ۔آخر جب انہو ں نے دیکھا کہ وہ چھو ٹا سا قصبہ ان کی جو لا نگا ہ کے لیئے بہت چھو ٹا ہے تو وہ حصو ل علم کے لیئے بغداد تشریف لے گئے اور راستہ میں اپنی سچا ئی کی بنا پر ڈا کو ؤ ں کو مطیع کر تے ہو ئے بغداد اس طر ح پہنچے کہ اس واقعہ کے شا ہد اور شہرت ان سے پہلے بغداد پہنچ چکی تھی۔ یہاں آنے کے بعد انہوں نے پہلے تو حضرت حماد بن مسلم دبا س  (رح)جو اس دور کے نامور عارف تھے، کی خدمت میں حا ضر دی ، جنہو ں نے انہیں ہا تھو ں ہا تھ لیا۔مگر تھو ڑے دنو ں بعد انہیں یہ محسوس ہوا کہ صرف علم با طنی ہی کا فی نہیں ہے لہذ اس وقت کے عظیم فقیہ حضرت قاضی ابو سعید المبا رک (رح) کی خدمت میں حا ضرہو ئے اور ان سے علم القر آن و حدیث اور فقہ وغیرہ حا صل کیئے اور جب انہو ں نے یہ کہہ کر ان کو فا رغ کر دیا کہ “ اے عبد القادر ہم تو تم کو الفا ظ ِ حدیث کی سند دے رہے ہیں ورنہ حدیث کے معنی میں تو ہم تم سے استفا دہ کر تے ہیں۔کیو نکہ بعض احا دیث کے معنی جو تم نے بیا ن کیئے ہیں ان تک ہما ری فہم کی رسا ئی نہیں تھی “ اس کے بعد بھی ان کا ابھی شا ید علم و عرفا ن تشنہ تھا ،جس لیئے وہ تخلیق کرئے گئے تھے۔ لہذا وہ صحرا نوردی کر تے رہے اور جب عر فا ن حا صل ہو گیا تو ان کو تبلیغ کا حکم مل گیا اور وہ اسی مدرسہ با ب الازج میں درس دینے لگے ۔وہا ں عالم یہ ہو گیا کہ رضا کا ر اور مخیر حضرات دن را ت اس کے حدود بڑھا تے رہے پھر بھی یہ مد رسہ شا ئقین علم کی کثرت کی بنا پر با زار اور سڑکو ں کو بندکر نے لگا۔ تو آپ نے عید گا ہ میں درس دینا شروع کر دیا جس میں بہ یک وقت ستر ہزا ر سا معین تک درس میں شامل ہو تے تھے اور چا ر سو دوا تیں اور قلم، قلمبند کر نے کے لیئے گنی گئیں ۔مگر کما ل یہ تھا کہ آپ کی آواز بغیر کسی مکبّر کے ہر کو نے میں پہونچتی تھی اور سیکڑوں آدمی روزانہ مسلمان ہو تے اور بقیہ اپنے دین کو درست کر نے کی کو شش کر تے ۔اپنی تقا ریر میں آپ مسلما نو ں کے ہر طبقے کو بری طر ح لتاڑتے جس میں امرا ءعلما ءاور گدی نشین سبھی شا مل تھے ۔ گو کہ آپ نے کئی خلفاءکا دور دیکھا مگر نہ تو کسی خلیفہ کی ہا تھ ڈا لنے کی جرا ءت ہو ئی نہ کسی اور کی جبکہ فدا ئین ہی با ت با ت پر علما ءکو قتل کر رہے تھے ۔یہ بھی ایک زندہ کرا مت تھی۔ جبکہ آپ کبھی نہ در با ر میں تشریف لے گئے نہ اپنے یہا ں امرا ءیا خلیفہ کا آنا پسند فر ما یا ۔یاد رہے ان سے پہلے لا تعداد علما ءانہیں جا بر خلفاءکے ظلم کا شکا ر ہو ئے جن میں فقہ حنبلی کے با نی حضرت امام احمد حنبل(رح) بھی تھے جن کے فقہ کو انہو ں نے دو با رہ زندہ کیا۔ جس کی وجہ سے آپ کا لقب محی الدین پڑا، حضرت امام حنبل(رح) بے انتہا مظا لم کا شکا ر ہو ئے اور اپنی جا ن اللہ کے سپر د کی ۔ لیکن اس کے با وجود بھی حضرت عبد القادر جیلانی(رض) اپنی تقاریر میں انہیں بری طر ح مخا طب فر ما تے تھے،اس کے چند نمو نے ہم آگے پیش کر رہے ہیں۔ آپ کا زمانہ “ عذاب ِ تا تا ر “مسلما نوں پر نا زل ہو نے سے پہلے کا تھا۔ چو نکہ اللہ تعا لیٰ کی سنت رہی رہی ہے کہ وہ ہر عذا ب سے پہلے کو ئی نبی(ع) ضرورمبعوث فر ما تا تھا ۔مگر حضو ر(ص) کے بعد کو ئی نبی نہیں آنا تھا ۔لہذا پہلا مجدد چھٹی صدی ہجری میں اتما م حجت کے لیئے ان کوبنا کر بھیجا اور جب وہ کسی کو کہیں بھیجتا ہے تو کرا ما ت سے بھی مسلح فرما دیتا ہے اور علم سے بھی، نیز اس کی حفا ظت بھی خو د فر ما تا ہے۔ اس تمہید سے جو بڑی طویل ہے آپ نے اندا زہ لگا لیا ہو گا کہ وہ کس معیا ر کے بزرگ تھے اور ان کا مشن کیا تھا، جس میں انہیں تا ئید غیبی حا صل رہی ،تو تعجب کی با ت کیا ہے ؟ لہذا انہیں ما ننے والوں کے غلو کوبنیا دبناکر ان  کومطعون کر نا خو د اپنی عاقبت خراب کر نا ہے۔ اب ہم چند خطبا ت کے مختصر اقتبا سات پیش کر کے کر اس مضمو ن کو ختم کر رہے ہیں ۔

لیکن اس کے بر عکس واعظین کاسا را زور کرامات پر ہی رہتا ہے ۔جس سے عوام الناس کو کو ئی فا ئدہ نہیں پہنچتا ۔اس میں کو ئی شک نہیں کہ وہ صا حب ِ کشف و کرا ما ت تھے اور اس کا سب سے بڑا ثبو ت جو ملتا ہے وہ ابن ِ کثیر کے یہا ں بھی ہے تحریر فر ما تے ہیں کہ “ عبد القادر جیلا نی کی کرا ما ت اس کثر ت اور تواتر کے سا تھ ملتی ہیں ان کی تر دید نہیں کی جاسکتی اور انہو ں نے حضور( سیرت کی کتاب(البدایہ النہایہ ) میں بھی ان کوصاحب کشف بزرگ لکھا ہے، نیز یہ کہ لوگوں نے ان سے بڑا فا ئدہ اٹھا یا  ً مگر جیسا کہ ہم پہلے عرض کر چکے ہیں کہ عوا می مجا لس میں انہو ں نے اس کو کبھی مو ضو ع نہیں بنا یا ،عوامی مجا لس میں ان کو مو ضو ع بنا نا با لکل ایسا ہے جیسا کہ کسی پہلے درجہ کے طا لب علم کے سا منے پی ایچ ڈی کا مقا لہ پڑھا جائے ۔اس کو اقبا ل نے بڑی خو بصو رتی سے اپنے ایک شعر میں سمویا ہے  اقبا ل یہا ں ذکر نہ کر لفظ ِ خو دی کا  مو زوں نہیں مکتب کے لیئے ایسے مقا لا ت ً ہما رے ایک دو ست نے اس کو ایک مر تبہ حلقہ تفسیرمیں ،قرآن سے ہی ثا بت کیا کہ یہ عوامی مضمو ن نہیں ہے۔ اس لیئے جو اسے نہیں سمجھتے ہو ں انہیں منہ کھولنے کی گنجا ئش نہیں ہے !اور نہ عوام الناس کو سمجھنے کی تکلیف دی جا ئے، ورنہ وہ را ستہ بھٹک جا ئیں گے۔ اور اس کی مثا ل انہو ں نے حضرت مو سٰی علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کے قصے سے دی ۔ ان کا استد لا ل وہی تھا جو حضرت خضر نے حضرت مو سٰی سے فر ما یا کہ “ آپ چپ کیسے رہ سکتے تھے ۔جب جا نتے ہی نہیں تھے کہ میں نے یہ تمام افعال اللہ کی مر ضی کے مطا بق انجام دیئے “تو یہا ں بھی صورت حا ل یہ ہی ہے کہ جو منکر ہیں۔ ان کی سمجھ میں ہی نہیں آسکتا ،اور جو عوام ہیں، یہ مسا ئل ان کی سمجھ سے یو نہیں با ہر ہیں۔ اور وہ مو جو دہ دور کے سجا دہ نشینو ں کو ان پر قیا س کر کے ان کو بھی کو ئی گو شہ نشین اور مر یدو ں کے نذرا نو ں پر گزر کر نے والا سجا دہ نشینوں جیساقیا س کر لیتے ہیں ۔اور اس کا م پر پر دہ پڑجا تا ہے، جس کی بنا پر وہ محی الدین کہلا ئے یعنی “ دین کو زند ہ کر نے والے  “اور یہ مہینہ بھی اسی کشمکش کا شکا ر ہو جا تا ہے۔ بجا ئے استفا دہ حاصل کر نے کے ،جو منکر ہیں اتنا حد سے تجا وز کر جا تے ہیں کہ اسے شرک کہتے ہیں اور دوسروں کااس مہینہ میں سا را زور اسی پر ہو تا ہے کہ ان کی کرا ما ت کیا تھیں ؟ جبکہ وہ خود اپنی کتاب غنیة الطا لبین میں اس کو پا نچو یں در جہ کی چیز فر ما تے ہیں ۔اور یہ کہ“ یہ اللہ اور بندے کے در میا ن پردے کا دور ہو تا ہے، جب وہ اس سے بھی گزر جا تا ہے تب اسے عرفا ن حا صل ہو تا ہے ؟ جبکہ دوسرا گروہ اس کو منا نے ان کے نام پر نذرونیا ز اور جا نور پا لنے اور ذبح کر نے کو شرک قرار دیتا ہے اور بہ زعم ِخود تقویٰ کی بنا پر ایسی با توں پر لب کشا ئی کر تا ہے،جن کا اس کو علم ہی نہیں ہے اور ان تما م غلط کا ریو ں کا جو عوام ان کے نا م پر کر تے ہیں ذمہ دا ر قرار دے کر اپنے آپ تہمت لگانے کا مر تکب ہوتا ہے ۔اور اس پر ظلم یہ کہ استدلال کے لیئے سورہ بقر کی وہ آیت جس میں ۔۔ مااھل بہ لغیر اللہ ۔۔۔ الخ کا ذکر آیا ہے پیش کرتا ہے ۔ اس آیت کی تفسیر حضرت عبدا للہ ابن ِ مسعود نے فرمائی ہے ما ذبح للطوا غیت ۔۔۔ یعنی جو جانور طاغو توں کے نام پر ذبح کیا جا ئے وہ حرام ہے ۔اس تفسیر کی روشنی میں کو ئی کہہ سکتا ہے کہ کو ئی مسلمان کسی طا غوت (کسی شیطا نی طا قت )یعنی دیوی دیو تا وغیرہ کے نام پر ذبح کر سکتا ہے ؟ با لا خر یہ اگر پا لے ان کے نام پر گئے تھے تو بھی ان کو یہ مقام اسلام کے اتبا ع، رسول اور وحدانیت کی بنا پر ملا نہ کہ( نعوذباللہ) طاغوت کی پیرو ی کی بناپر۔اورنہ ہی ان کے ما ننے والے ایسے سمجھے جاسکتے ہیں ! لہذا یہ اللہ ہی کی محبت میں پا لے جا تے ہیں اور اللہ ہی کے نا م پر ذبح کیئے جا تے ہیں ۔ اور پھر اگر بیچ میں یہ لغزش مان بھی لی جا ئے، تو اس حدیث کی بنا پرجو اہل ِ دوزخ اور جنت کے بار ے میں ہے ۔ ۔۔۔وانماالاعما ل بخواتیمھا ۔ (کہ ثواب کا دارومدار عمل کے مرتبہ نتا ئج پر ہے ) اگر ان کے نا م پر بکرا پالا بھی تھا تو بھی آخری نتیجہ یہ ہے کہ وہ ذبح اللہ ہی کہ نام پر ہوا ۔ اور یہ دو نوں طرف لا علمی ہے ۔جو ایسا کرا تی ہے اگر دو نوں عقیدت یا تعصب کی عینک اتا ر کر دیکھیں، تو ان کا نو را نی چہرہ نظر آ جائیگا ۔جنہوں نے بگڑی ہو ئی امت کو سنبھا لنے کی کو شش کی اور آج تک ان کا صحیح اتبا ع کر نے والے سا ت سو سال سے فیض پاتے آرہے ہیں ۔جس کی وجہ سے وہ محی الدین کہلا نے کے مستحق بنے ۔ہم آپ کو وہ روا یتی با تیں سنا نے کے بجا ئے جو آپ پہلے ہی بہت سن چکے ہیں، ان کی زند گی کی اصل شبیہ پیش کر رہے ہیں ۔جس کے لیئے اللہ تعا لیٰ نے انہیں اسوقت بھیجا تھا ۔پہلے تو ہم آپ کو اس دور کے با رے میں بتا نا چا ہیںگے کہ جب انہو ں نے آنکھ کھو لی تو وہ دو ر تھا جس میں سلجو قیوں نے ابو بہ کو شکست دے کر عبا سی سلطنت دو با رہ قا ئم کر لی تھی ۔مگر پور اعا لم ِ اسلام آج کی طر ح سیکڑوں با د شا ہتو ں میں بٹا ہوا تھا اور سب ایک دو سرے سے جو ع الا رض میں مبتلا ہو نے کی سبب دست بہ گر یبا ں تھے۔ جبکہ خلیفہ کا کا م اتنا رہ گیا تھا کہ جو جیت جا ئے اس کو سند ِ با د شا ہی عطا کر دے ۔گو اس وقت جو خلیفہ تھا وہ دیندا ر تھا اور علما ءاور صو فیاءدو نوں کا احترام کر تاتھا۔ اور سا تھ لے کر چلنے کی کو شش بھی کر تا تھا ، مگر عوام اور رؤسا ءگمرا ہ ہو چکے تھے لہذا وہ ہر ایک کے کنٹرول سے با ہر اور سا زشو ں میں مصروف تھے۔ اور آج کی طرح ہر ایک باد شا ہ ان کو را ضی رکھنے اور اپنے تخت کو بچا نے میں مصروف رہتا تھا ۔ ایک طر ف شا م پر عیسا ئی حملہ آور تھے تو دوسری طر ف با طنی فر قہ کے سر برا ہ حسن بن سبا ح کے معتقدین تبا ہی مچا ئے ہو ئے تھے ۔ جو منہ کھو لتا، چا ہے وہ عا لم ہو یا با د شاہ اور سردار، وہ اپنے فدا ئین سے اسے قتل کروا دیتے اسی دوران انہوں نے ظلم یہ کیا کہ نظا م الملک طو سی  کو جو کہ بہت بڑا صا حب علم اور بہترین منتظم تھا قتل کرا دیا۔ اس طر ح سلجو قی سلطنت بھی انتشار کا شکا ر ہو گئی ۔ایسے میں حضرت عبد القادر جیلا نی (رض) کی پیدا ئش ایک انتہا ئی بزرگ گھرا نے میں ہو ئی اور بچپن سے ہی ان کے جو ہر کھلنے لگے ۔آخر جب انہو ں نے دیکھا کہ وہ چھو ٹا سا قصبہ ان کی جو لا نگا ہ کے لیئے بہت چھو ٹا ہے تو وہ حصو ل علم کے لیئے بغداد تشریف لے گئے اور راستہ میں اپنی سچا ئی کی بنا پر ڈا کو ؤ ں کو مطیع کر تے ہو ئے بغداد اس طر ح پہنچے کہ اس واقعہ کے شا ہد اور شہرت ان سے پہلے بغداد پہنچ چکی تھی۔ یہاں آنے کے بعد انہوں نے پہلے تو حضرت حماد بن مسلم دبا س  (رح)جو اس دور کے نامور عارف تھے، کی خدمت میں حا ضر دی ، جنہو ں نے انہیں ہا تھو ں ہا تھ لیا۔مگر تھو ڑے دنو ں بعد انہیں یہ محسوس ہوا کہ صرف علم با طنی ہی کا فی نہیں ہے لہذ اس وقت کے عظیم فقیہ حضرت قاضی ابو سعید المبا رک (رح) کی خدمت میں حا ضرہو ئے اور ان سے علم القر آن و حدیث اور فقہ وغیرہ حا صل کیئے اور جب انہو ں نے یہ کہہ کر ان کو فا رغ کر دیا کہ “ اے عبد القادر ہم تو تم کو الفا ظ ِ حدیث کی سند دے رہے ہیں ورنہ حدیث کے معنی میں تو ہم تم سے استفا دہ کر تے ہیں۔کیو نکہ بعض احا دیث کے معنی جو تم نے بیا ن کیئے ہیں ان تک ہما ری فہم کی رسا ئی نہیں تھی “ اس کے بعد بھی ان کا ابھی شا ید علم و عرفا ن تشنہ تھا ،جس لیئے وہ تخلیق کرئے گئے تھے۔ لہذا وہ صحرا نوردی کر تے رہے اور جب عر فا ن حا صل ہو گیا تو ان کو تبلیغ کا حکم مل گیا اور وہ اسی مدرسہ با ب الازج میں درس دینے لگے ۔وہا ں عالم یہ ہو گیا کہ رضا کا ر اور
مخیر حضرات دن را ت اس کے حدود بڑھا تے رہے پھر بھی یہ مد رسہ شا ئقین علم کی کثرت کی بنا پر با زار اور سڑکو ں کو بندکر نے لگا۔ تو آپ نے عید گا ہ میں درس دینا شروع کر دیا جس میں بہ یک وقت ستر ہزا ر سا معین تک درس میں شامل ہو تے تھے اور چا ر سو دوا تیں اور قلم، قلمبند کر نے کے لیئے گنی گئیں ۔مگر کما ل یہ تھا کہ آپ کی آواز بغیر کسی مکبّر کے ہر کو نے میں پہونچتی تھی اور سیکڑوں آدمی روزانہ مسلمان ہو تے اور بقیہ اپنے دین کو درست کر نے کی کو شش کر تے ۔اپنی تقا ریر میں آپ مسلما نو ں کے ہر طبقے کو بری طر ح لتاڑتے جس میں امرا ءعلما ءاور گدی نشین سبھی شا مل تھے ۔ گو کہ آپ نے کئی خلفاءکا دور دیکھا مگر نہ تو کسی خلیفہ کی ہا تھ ڈا لنے کی جرا ءت ہو ئی نہ کسی اور کی جبکہ فدا ئین ہی با ت با ت پر علما ءکو قتل کر رہے تھے ۔یہ بھی ایک زندہ کرا مت تھی۔ جبکہ آپ کبھی نہ در با ر میں تشریف لے گئے نہ اپنے یہا ں امرا ءیا خلیفہ کا آنا پسند فر ما یا ۔یاد رہے ان سے پہلے لا تعداد علما ءانہیں جا بر خلفاءکے ظلم کا شکا ر ہو ئے جن میں فقہ حنبلی کے با نی حضرت امام احمد حنبل(رح) بھی تھے جن کے فقہ کو انہو ں نے دو با رہ زندہ کیا۔ جس کی وجہ سے آپ کا لقب محی الدین پڑا، حضرت امام حنبل(رح) بے انتہا مظا لم کا شکا ر ہو ئے اور اپنی جا ن اللہ کے سپر د کی ۔ لیکن اس کے با وجود بھی حضرت عبد القادر
جیلانی(رض) اپنی تقاریر میں انہیں بری طر ح مخا طب فر ما تے تھے،اس کے چند نمو نے ہم آگے پیش کر رہے ہیں۔ آپ کا زمانہ “ عذاب ِ تا تا ر “مسلما نوں پر نا زل ہو نے سے پہلے کا تھا۔ چو نکہ اللہ تعا لیٰ کی سنت رہی رہی ہے کہ وہ ہر عذا ب سے پہلے کو ئی نبی(ع) ضرورمبعوث فر ما تا تھا ۔مگر حضو ر(ص) کے بعد کو ئی نبی نہیں آنا تھا ۔لہذا پہلا مجدد چھٹی صدی ہجری میں اتما م حجت کے لیئے ان کوبنا کر بھیجا اور جب وہ کسی کو کہیں بھیجتا ہے تو کرا ما ت سے بھی مسلح فرما دیتا ہے اور علم سے بھی، نیز اس کی حفا ظت بھی خو د فر ما تا ہے۔ اس تمہید سے جو بڑی طویل ہے آپ نے اندا زہ لگا لیا ہو گا کہ وہ کس معیا ر کے بزرگ تھے اور ان کا مشن کیا تھا، جس میں انہیں تا ئید غیبی حا صل رہی ،تو تعجب کی با ت کیا ہے ؟ لہذا انہیں ما ننے والوں کے غلو کوبنیا دبناکر ان  کومطعون کر نا خو د اپنی عاقبت خراب کر نا ہے۔ اب ہم چند خطبا ت کے مختصر اقتبا سات پیش کر کے کر اس مضمو ن کو ختم کر رہے ہیں ۔

View outside Hazrat sheikh Abdul Qadir Jilani shrine/Pic by Tawarikh Khwani

View outside Hazrat sheikh Abdul Qadir Jilani shrine/Pic by Tawarikh Khwani




View this post on Instagram
View this post on Instagram


 با شند گا ن بغداد سے خطاب ۔ اے بغداد کے رہنے والو! تمہا رے اندر نفاق زیا دہ اور اخلا ص کم ہو گیا ہے اور اقوال بلا اعما ل بڑھ گئے ہیں اور عمل کے بغیر قول کسی کا م کا نہیں ،تمہا رے اعما ل کا بڑا حصہ جسم ِ بے روح ہے ؟کیو نکہ روح ِاخلا ص تو حید و سنت ِ رسول اللہ (ص) پر قا ئم ہے ، غفلت مت کرو ،اپنی حا لت کوپلٹوتا کہ تمہیں راہ ملے ۔ جاگ اٹھو ،اے سو نے والو ! اے غفلت شعارو بیدار ہو جا ؤاے سو نے والو !جاگ اٹھو( اس با طل نظریہ سے با ز آؤ)کہ جس پر ابھی تم نے اعتما د کیا ( عقیدہ بنا رکھا ہے )وہ تمہارا معبود ہے اور اس سے توقع کرو کے اس کے ہا تھ میں حق تعا لیٰ نے تمہا را نفع نقصان دے رکھا ہے۔ جبکہ نفع اور نقصان پہنچا نے وا لا تمہارا معبو د اللہ ہے ۔ (اے غافلوں )عنقریب تمہیں تمہارا انجا م نظر آجا ئے گا ( نوٹ۔ بعد میں وہ ڈراوا، یا پیش گو ئی پو ری ہو کر رہی ان کے وصال فر مانے کے تھو ڑے ہی عرصہ بعد، تا تا ریوں نے، بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجا دی (شمس) ً  در با ری علما زہا د، فقیہوں ، صوفیوں، اور سلا طین سے خطا ب “ اے علم و عمل میں خیا نت کر نے والو!تم کو ان سے کیا نسبت ،اے اللہ اور اس کے رسول کے دشمنو ! اے اللہ کے بندوں (کے حقوق )پر ڈا کہ ڈا لنے والو!تم کھلے ظلم ،کھلے نفا ق میں مبتلا ہو ،یہ نفا ق کب تک ؟ عا لمو ں اور زاہدو!با دشا ہوں اور سلطا نوں کے لیئے تم کب تک منا فق بنے رہو گے؟ کہ تم ان سے زر و ما ل شہوات (خو اہشا ت)و لذات حا صل کر تے ہو ۔تم اور اکثر با د شا ہا ن وقت اللہ کے ما ل اور اس کے بندوں کے با رے میں ظا لم ،اور خیا نت کر نے والے ہو! اے الٰہی ، منا فقوں کی شو کت کو تو ڑ دے اور ان کو ذلیل فر مایا، ان کو توبہ کی تو فیق عطا فر ما اور ظا لم کا قلع قمع فر ما دے ، زمین کو ان سے پا ک فر ما دے یا ان کی اصلا ح فر ما دے ( آمین )  “ تم رمضان میں اپنے نفسوں کو پا نی سے رو کتے ہو اور جب افطار کا وقت آتا ہے تو مسلما نوں کے خون سے افطار کرتے ہو، ان پر ظلم کر کے جو مال حا صل کیا گیا ہے اس کو نگلتے ہو ،اے لو گوں تم سیر ہو کر کھا تے ہو اورتمہا رے پڑوسی بھو کوں مر تے ہیں۔پھر دعویٰ کر تے ہو ہم مو من ہیں ۔تمہارا ایمان صحیح نہیں ہے۔ دیکھو !ہما رے نبی(ص) اپنے ہا تھ سے سا ئل کو دیا کرتے تھے ،اپنی اونٹنی کو چا رہ ڈا لتے تھے ،اس کا دودھ دو ہتے ۔اپنا کرتا سیا کر تے ۔تم ان کی متا بعت کا دعویٰ کیسے کر سکتے ہو جبکہ افعال میں ان کی مخا لفت کر تے ہو،تم میں کو ئی بھی نہیں ہے جس پر توبہ واجب نہ ہو ۔ (حضرت عبد القادر جیلانی کی کتاب فتوح الغیب سے اقتبا سات)اب فیصلہ میں آپ پر چھو ڑتا ہو ں ۔کہ ان میں سے کو نسا پیغام خلا ف شرع ہے ؟یا یہ بزرگ اس آیت کی تفسیر ہیں۔ تر جمہ ً“جنہیں ہم نے پیداکیا ان میں  کچھ لو گ ہیں جو حق کی طرف راہ دکھلاتے ہیں اور اسی کے مطا بق انصاف کر تے ہیں ً ( ١٨١:٧)

با شند گا ن بغداد سے خطاب ۔ اے بغداد کے رہنے والو! تمہا رے اندر نفاق زیا دہ اور اخلا ص کم ہو گیا ہے اور اقوال بلا اعما ل بڑھ گئے ہیں اور عمل کے بغیر قول کسی کا م کا نہیں ،تمہا رے اعما ل کا بڑا حصہ جسم ِ بے روح ہے ؟کیو نکہ روح ِاخلا ص تو حید و سنت ِ رسول اللہ (ص) پر قا ئم ہے ، غفلت مت کرو ،اپنی حا لت کوپلٹوتا کہ تمہیں راہ ملے ۔ جاگ اٹھو ،اے سو نے والو ! اے غفلت شعارو بیدار ہو جا ؤاے سو نے والو !جاگ اٹھو( اس با طل نظریہ سے با ز آؤ)کہ جس پر ابھی تم نے اعتما د کیا ( عقیدہ بنا رکھا ہے )وہ تمہارا معبود ہے اور اس سے توقع کرو کے اس کے ہا تھ میں حق تعا لیٰ نے تمہا را نفع نقصان دے رکھا ہے۔ جبکہ نفع اور نقصان پہنچا نے وا لا تمہارا معبو د اللہ ہے ۔ (اے غافلوں )عنقریب تمہیں تمہارا انجا م نظر آجا ئے گا ( نوٹ۔ بعد میں وہ ڈراوا، یا پیش گو ئی پو ری ہو کر رہی ان کے وصال فر مانے کے تھو ڑے ہی عرصہ بعد، تا تا ریوں نے، بغداد کی اینٹ سے اینٹ
بجا دی (شمس) ً  در با ری علما زہا د، فقیہوں ، صوفیوں، اور سلا طین سے خطا ب “ اے علم و عمل میں خیا نت کر نے والو!تم کو ان سے کیا نسبت ،اے اللہ اور اس کے رسول کے دشمنو ! اے اللہ کے بندوں (کے حقوق )پر ڈا کہ ڈا لنے والو!تم کھلے ظلم ،کھلے نفا ق میں مبتلا ہو ،یہ نفا ق کب تک ؟ عا لمو ں اور زاہدو!با دشا ہوں اور سلطا نوں کے لیئے تم کب تک منا فق بنے رہو گے؟ کہ تم ان سے زر و ما ل شہوات (خو اہشا ت)و لذات حا صل کر تے ہو ۔تم اور اکثر با د شا ہا ن وقت اللہ کے ما ل اور اس کے بندوں کے با رے میں ظا لم ،اور خیا نت کر نے والے ہو! اے الٰہی ، منا فقوں کی شو کت کو تو ڑ دے اور ان کو ذلیل فر مایا، ان کو توبہ کی تو فیق عطا فر ما اور ظا لم کا قلع قمع فر ما دے ، زمین کو ان سے پا ک فر ما دے یا ان کی اصلا ح فر ما دے ( آمین )  “ تم رمضان میں اپنے نفسوں کو پا نی سے رو کتے ہو اور جب افطار کا وقت آتا ہے تو مسلما نوں کے خون سے افطار کرتے ہو، ان پر ظلم کر کے جو مال حا صل کیا گیا ہے اس کو نگلتے ہو ،اے لو گوں تم سیر ہو کر کھا تے ہو اورتمہا رے پڑوسی بھو کوں مر تے ہیں۔پھر دعویٰ کر تے ہو ہم مو من ہیں ۔تمہارا ایمان صحیح نہیں ہے۔ دیکھو !ہما رے نبی(ص) اپنے ہا تھ سے سا ئل کو دیا کرتے تھے ،اپنی اونٹنی کو چا رہ ڈا لتے تھے ،اس کا دودھ دو ہتے ۔اپنا کرتا سیا کر تے ۔تم ان کی متا بعت کا دعویٰ کیسے کر سکتے ہو جبکہ افعال میں ان کی مخا لفت کر تے ہو،تم میں کو ئی بھی نہیں ہے جس پر توبہ واجب نہ ہو ۔ (حضرت عبد القادر جیلانی کی کتاب فتوح الغیب سے اقتبا سات)اب فیصلہ میں آپ پر چھو ڑتا ہو ں ۔کہ ان میں سے کو نسا پیغام خلا ف شرع ہے ؟یا یہ بزرگ اس آیت کی تفسیر ہیں۔ تر جمہ ً“جنہیں ہم نے پیداکیا ان میں  کچھ لو گ ہیں جو حق کی طرف راہ دکھلاتے ہیں اور اسی کے مطا بق انصاف کر تے ہیں ً ( ١٨١:٧

https://www.instagram.com/p/BwBGqWWDK86/
https://www.instagram.com/p/BwBGqWWDK86/
Website | + posts

Dr. Shams Jilani is Canada based senior Urdu Columnist, Social worker & Islamic writer. A senior member of many multicultural advisory boards of City of Richmond, British Columbia, Canada. His more than four thousand columns on diverse issues has appeared in many international Urdu newspapers of UK, Pakistan, Canada & USA in addition to more than twenty two books.

error

Enjoy this blog? Please spread the word :)