شیخ حسن طاہر جون پوری

Resting place of Sheikh Hasan bin Tahir Jaunpuri at Vijay Mandal, Delhi
Pic source: Syed Mohammad Qasim

سم اللہ الرحمٰن الرحیم 
شیخ حسن بن طاہر جون پوری ثم دہلوی م 909 ھ

آپ عہد مغلیہ سے قبل ہندوستان کے عالم کبیر، عارف جلیل اور صاحب مقامات بزرگ گزرے ہیں ! شیخ حسن کے والد کا نام طاہر تھا اور اسی لئے آپ کا نام اکثر جگہوں پر حسن طاہر منقول ہے 
نسب
تزکروں میں آپ کو شیوخ عباسی بتایا گیا ہے یعنی آپ جناب عباس بن عبد المطلب رض کی اولاد میں سے تھے
وطن

آپ کے بزرگوں کا اصل وطن ملتان تھا۔ تحصیل علم کی خاطر آپ کے دادا پہلے بہار  آئے اور  کچھ عرصہ بہار میں سکونت اختیار کی۔  اول اول شیخ محمد کے مدرسے میں مقیم رہے پھر شیخ بدھ حقانی سے تعلیم حاصل کرتے رہے، چنانچہ یہ خاندان بہار میں تھا کہ شیخ حسن بن طاہر متولد ہوئے ۔   
شیخ حسن کی پیدائش تو بہار میں ہوئی تھی مگر جب اپ کچھ بڑے ہوئے تو اپ کے والد شیخ طاہر حصول علم کے بہترین مواقع دیکھ کر جون پور منتقل ہو گیے جو تب تک علماء اور فضلاء کا مرکز بن چکا تھا اور ہندوستان بھر کے چوٹی کے فضلاء وہاں موجود تھے 
تعلیم آپ نے شیراز ہند جونپور میں مختلف اساتذہ سے،  جن مین شیخ شہاب الدین دولت ابادی کے  شاگر شامل تھے،  حاصل کی۔
اسی زمانے میں فصوص الحکم ایک بزرگ سے آپ نے پڑھنی شروع کی جب کہ آپ کے والد صاحب اس کے  سخت مخالف تھے انہوں نے ایک دن مسئلہ توحید کے متعلق آپ سے دریافت کیا ، آپ نے اس مسئلے کو علماء ظاہر کی طرح ایسی وضاحت سے بیان کیا  کہ آپ کے والد صاحب کے بھی چند اشکال ختم ہوگئے پھر اس کے بعد آپ کو فصوص الحکم کے پڑھنے سے منع نہیں فرمایا 
 تکمیل علوم کے بعد شیخ حسن بن طاہر نے نے جون پور میں ہی ایک مدرسہ قائم کیا اور درس و تدریس میں مشغول ہوئے 
یہیں آپ کی شادی بھی شیخ محمد بن عیسی جون بوری کی بیٹی سے ہوئی۔

بیعت 
جس زمانے میں شیخ حسن جونپور ائے ، اس زمانے میں جونپور علماء و مشائخ سے پر تھا ، بالخصوص مانکپور (اودھ) کے مشہور بزرگ راجے سید حامد مانک پوری کا شہرہ آفتاب نصف النہار پر تھا مگر چونکہ  راجے سید حامد شاہ رسمی عالم نہیں تھے ، علماء و فضلاء کا ان کی طرف رجوع نہ کے برابر تھا ، ایک مرتبہ شیخ حسن بھی امتحان کی غرض سے ان کے پاس   گئے اور پہلی ہی ملاقات میں میں راجے سید حامد کے معتقد ہوگئے
یہ قابلِ ذکر ہے کہ شیخ حسن طاہر پہلے جید عالم تھے جو سید حامد شاہ سے بیعت ہوئے ، راجے سید حامد ، چشتی نظامی سلسلے کے اکابر شیخ حسام الدین مانک پوری کے اجل خلفاء میں سے تھے ، راجے سید حامد کی وفات کے بعد ، شیخ حسن طاہر نے اپنے مرشد زادہ راجے سید نور سے اصلاحی تعلق قائم کیا اور بالآخر راجے نور سے خلافت حاصل ہوئی ۔ آپ کا اپنے مرشد کی نگاہ میں کیا مقام تھا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ راجے سید حامد آپ کو کمال الحق کہا کرتے تھے اور بروز قیامت اپ کو بطور حجت پیش کرنے کی بات کہا کرتے تھے !

دہلی میں قیام
جونپور میں تکمیل علوم و سلوک کے بعد آپ سلطان سکندر لودھی کے زمانے میں اگرہ تشریف لائے ۔ کچھ عرصہ کے بعد سلطان سکندر کی استدعا پر اگرہ سے دہلی منتقل ہو گئے اور بمقام بجے منڈل اپنے اہل و عیال کے ساتھ قیام فرمایا اور وہیں درس و تدریس کا سلسلہ بھی جاری فرمایا۔
ایک زمانے کو علوم ومعارف سے سیراب فرمانے کے بعد 24 ربیع الاول 909 ھ میں دہلی میں اپ کا انتقال ہوا اور وہیں  بجے منڈل میں ہی بیگم پوری مسجد کے قریب ہی آسودہ خاک ہیں اور اپ کا مزار اب تک زیارت گاہ خاص و عام ہے ، آپ کے مزار پر ایک درخت سایہ فگن ہے اور قریب ہی آپ کے اعزہ و اقارب کی قبور ہیں ، امتداد زمانہ سے جہاں دہلی میں ہزاروں مشاہیر کی قبور مسمار ہو گئیں مگر خدا کی شان ہے کہ آپ کی قبر بغیر کسی قبہ، بنا کسی عمارت یا گنبد کے محفوظ و مامون رہی۔

منقول ہے کہ سلطان سکندر لودھی کا ایک بھائی جس پر سلطنت کے حصول کا جنون سوار تھا ہے وہ آپ سے تعلق رکھتا تھا تھا، اس خیال کو لے کر وہ ایک دن آپ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ حضرت دعا فرمائیے کہ خدا تعالی یہان کی حکومت مجھے عنایت فرمائے آپ نے اس کو اس خام خیالی سے منع کرتے ہوئے فرمایا کہ خدا تعالی نے اپنی حکمت کاملہ سے تمہارے بھائی کو سلطنت عطا فرمائی ہے ہے تم اس سے کوئی اختلاف نہ کرو بلکہ اس کے تابع ہو کر رہو رہو جب اس بات کی اطلاع سلطان سکندر کو ہوئی تو آپ کی دیانت و خدا ترسی سے بےحد متاثر ہو کر حاضر خدمت ہوا اور اس کے دل میں اپ کی عقیدت اور محبت مزید مستحکم ہو گئی۔
طریقہ سلوک پر آپ نے کئی رسالے لکھے تھے مگر ان کتابوں میں سے ایک کتاب مفتاح الفیض بہت مشہور ہوئی ،  اس میں سے کچھ اقتباسات شیخ عبد الحق محدث دہلوی نے نقل کئے ہیں ، لکھتے ہی
سوال : سلوک کیا ہے اور سالک کیا ہے ؟تزکیہ قلب و نفس کیا ہے؟تخلیہ سر  و روح کیا ہے ؟ منزل و جزبہ کیا ہے ؟ تخلیہ روح کیا ہے منزل اور جذبہ کیا ہے شریعت طریقت حقیقت کیا چیز ہے کیا ہے ؟ اور ان کا مقام کیا ہے؟
جواب : سلوک کے معنی لغت میں چلنا ہے ہے وہ حسی طور پر چلنے کے معنی میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو جان اور یہاں سلوک سے مراد معنوی چلنا مراد ہے اور اسی انتقال کو مرتبہ نفس میں تزکیہ کہتے ہیں اور تزکیہ نفس سے مراد یہ ہے کہ حیوانی اوصاف کو ترک کر کے ملائکہ کے اوصاف سے متصف ہو جانا اور نفس امارہ کو نفس لوامہ اور مطمئنہ کے تابع کر دینا ہے۔دلا کے سلوک کو تصفیہ کہتے ہیں جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اپنے دل کو تمام دنیاوی رنج اور فکر سے صاف رکھا جائے  اور تخلیہ سر یہ ہے کہ اپنے سر میں کسی ما سوا اللہ کی کوئی خواہش نہ رکھی جائے آئے اور خدا کے علاوہ خواب وہ جنت ہی کیوں نہ ہو کوئی خیال نہ کرے اور اپنے سر کی نگہداشت کریں بعد میں غیر اللہ کا تصور تک نہ آنے دے اور اگر اچانک ماسواللہ کا کوئی خیال تصور آپ بھی جائے تو فورا اس کو نکال کر پھینک دے اور تجلی روح  یہ ہے کہ خدا تعالی کے ذوق و شوق اور اسرار اور انوار کے ذریعے اپنی روح کو پاک و صاف اور ان اوصاف سے مزین رکھے اور حقیقت سلوک سے مراد یہ ہے کہ حیوانی اور انسانی جملہ اوصاف سے نکل کر خدائی اوصاف اور خدائی اخلاق کو اپنا لے  جیسا کہ حدیث میں آتا ہے تخلقو باخلاق اللہ 

Pic Source: Social Media shares

(شیخ  محمد بن حسن جونپوری عرف شاہ خیالی _(839-944ھ

   آپ کے بیٹے کا نام شیخ محمد بن حسن تھا جو جونپور میں پیدا ہوئے اور وہیں علوم کی تکمیل فرمائی اور پھر دہلی آکر سید ابراہیم الایرجی سے قادریہ سلسلے میں بیعت ہوئے اور مدت تک انکی خدمت کی۔ آپ کو عرف عام میں محمد خیالی کے نام سے جانا جاتا تھا۔  کچھ عرصہ کے بعد اپ حرمین شریفین کی زیارت کو گئے اور ایک مدت دراز تک مدینہ شریف میں قیام کیا۔ مشائخ یمن سے بھی سلوک و طریقت  میں استفادہ کیا ۔جب دہلی سے سید عبد الوہاب بخاری دوسری مرتبہ حج کو گئے تو آپ کو وہاں پایا اور اپنے ساتھ دہلی واپس لائے۔ آپ بڑے عالم و عارف تھے اور اپنے زمانے کی اپ کی بڑی شہرت ہوئی ، اپ صاحب دیوان شاعر بھی تھے۔ آپ نہایت مرتاض ، قوی النسبت اور صاحبِ حال بزرگ تھے جب اپ خلوت سے باہر آتے تھے تو لوگ آپ کو دیکھ کر حیرت سے اللہ اکبر کہتے تھے۔ آپ کے متعلق بتایا گیا ہے کہ اپ عصر کے بعد رات کا ایسے انتظار کرتے جیسے کوئی اپنے محبوب کا انتظار کرتا ہے اور رات ہوتے ہی کمرہ بند کر کے ذکر و عبادت میں مشغول ہو جاتے
آپ کے خلفاء میں شیخ عبد الرزاق جھنجھانوی اور شیخ امان اللہ پانی پتی بھی ہین جنہوں نے وحدت الوجود پر اپنے خیالات کی وجہ سے خاص شہرت پائی ، شیخ عبد الحق محدث دہلوی کے چچا شیخ منجھو بھی اپ کے مرید تھے 
اپ کی وفات 944 ھ میں دہلی میں ہوئی اور اپنے والد کے برابر محو خواب ہیں

(شیخ عبد العزیز شکر بار جون پوری ثم دہلوی (898-975 ھ
شیخ حسن طاہر کے دوسرے بیٹے شیخ عبدالعزیز شکر بار چشتی دہلوی ہیں جنہیں دہلی کے متاخرین بزرگوں مین چشتیہ سلسلہ کا مجدد کہا جانا چاہیے   اپ جونپور میں پیدا ہوئے ، ڈیڑھ برس کے تھے کہ والد صاحب کے ہمراہ جون پور سے دہلی کی طرف سفر کیا ، پرورش دہلی میں ہوئی ، سید محمد بخاری دہلوی اور میر سید ابراہیم الایرجی سے علوم ظاہری کی تکمیل کی ۔
سہروردیہ سلسلہ سید عبد الوہاب بخاری سے حاصل کیا اور سلسلہ قادریہ میر سید ابراہیم ایرجی سے 
اس کے بعد ظفر آباد( جونپور)  کا سفر کیا اور وہاں  کئی برس قیام کیا ، ،مشہور بزرگ میاں قاضی خاں ناصحی سے چشتیہ سلسلے میں مرید ہوئے اور سلوک کی تکمیل فرمائی اور پھر دہلی واپس اکر مسند ارشاد پر متمکن ہوئے اور ایک زمانے کو مستفید فرمایا ، تمام تاریخ و تزکرے آپ کی پاک بازی ، اخلاق عالیہ ، تواضع ، نیک نفسی ، ورع و تقدس کی گواہ ہیں ،استقامت کی یہ حالت تھی کہ  جو وظیفہ اور وقت بچپن میں مقرر کیا ، اخر عمر تک وہ باقی اور قائم رہا ، دہلی میں اپ کے دم سے سلسلہ مشیخیت و ارشاد عرصہ تک قائم رہا۔ اپ کی عظمت کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ شیخ باقی باللہ رح جیسے بزرگ پابندی سے اپ کے مزار پر حاضر ہوتے اورجاروب کشی کرتے تھے

Hazrat Shiekh Abdul Aziz Shakarbaar Alehrehma ki Qabr , Pic Source: Syed Mohammad Qasim
Babe Aziz Dargah Hazrat Sheikh Abdulaziz Shakarbar,
Pic : Syed Mohammad Qasim
Kutba Dargah Hazrat Shiekh Abdulaziz Shakarbar, Pic Source: Syed Mohammad Qasim


 آپ کی تصنیفات میں سے رسالہ عینییہ جو شیخ امان پانی پتی کے رسالہ غیریہ کے رد میں ہے،  رسالہ عزیزیہ اشغال و اذکار میں ، عمدہ الاسلام فقہ حنفی میں اور شرح مخزن الاسرار، حقیقیہ المحمدیہ شیخ وجیہ الدین گجراتی کی شرح بھی شامل ہے اپ کے نامور خلفاء میں شیخ نجم الحق چائں لدہ سہنوی اور شیخ عبد الغنی بدایونی رحمہ اللہ علیہم شامل ہیں
آپ نے جلال الدین اکبر کے زمانے میں 975 ھ میں دہلی میں انتقال کیا اور جس مسجد کے سائے میں آپ کی قبر بنی اسے مسجد افغانان کہا جاتا تھا ، اب قبرستان مہندیان کا ایک حصہ سمجھئے۔
شیخ عبد العزیز کے بیٹے شیخ قطب العالم ،مشہور عالم فاضل ، متقی ، پرہیزگار بزرگ تھے اور اپنے والد کے جانشین تھے اور انکے بیٹے شیخ رفیع الدین محمد ہوئے جن کی بیٹی ، شاہ ولی اللہ دہلوی کی دادی تھیں۔
شیخ حسن طاہر اور آپ کے احفاد کا یہ مختصر تزکرہ ختم ہوا ، اپ سب پر اللّٰہ کی رحمتیں ہوں
نامِ نیکِ رفتگاں ضائع مکن
تابماند___ نام نیکت برقرار
-گزرے ہوؤں کی نیک نامی کو ضائع نہ کر تا کہ تیری نیک نامی بھی باقی رہے

خالد بن عمر


مزید مطالعہ / حوالے کے لئے ملاحظہ فرمائی
اخبار الاخیار ، شیخ عبد الحق محدث دہلوی
کلمات الصادقین ، محمد صادق ہمدانی کشمیری
مزاراٹ اولیائے دہلی  ، محمد عالم فریدی
انفاس العارفین ، شاہ ولی اللہ دہلوی
یادگار دہلی ، سید احمد ولی اللہی
ہسٹری آف قادری ارڈر ، فاطمہ زہرا بلگرامی

+ posts

Khalid Bin Umar is a history buff who writes on Micro-history, Heritage, Sufism & Biographical accounts. His stories and articles has been published in many leading magazines. Well versed in English, Hindi, Urdu & Persian, his reading list covers a vast arrays of titles in Tasawwuf & Oriental history. He is also documenting lesser known Sufi saints of India