عراق کا قدیم شہر أور جہاں حضرت ابراہیم عالیہسلام کی ولادت ہی

                                               حضرت ابرا ہیم علیہ السلام کا مثا لی کنبہ۔۔۔۔ شمس ؔجیلا نی وینکور

   قا رئین ِ گرا می۔آپ رو ا یتی طو ر پر تو حضرت ابرا ہیم علیہ السلام کا قصہ پڑھتے رہے ہیں مگر میں آج جو رخ آ پ کے سا منے پیش کر نے جا رہا ہو ں وہ ہے ایک مثا لی خا ندا ن یہا ں آپ کو عا ئلی زندگی کا وہ بہترین نمو نہ نظر آئے گا جو کہ نہ صرف تو کل علی اللہ کا مظہر ہے بلکہ فریقین میں ایک عظیم اعتما د کا مظہر بھی۔ اگر ہم ان کی پیروی کریں تو ہما ری زند گی نہ صرف اپنے لیے جنت بن جا ئے گی۔بلکہ اورو ں کے لیے بھی نمو نہ ہو۔آپ سب یہ تو جا نتے  ہی ہیں کہ حضرت ابرا ہیم علیہ السلام کو متعد با ر امتحا نا ت سے گذر نا پڑا، پہلی مرتبہ جب جبکہ انہو ں(ع) نے اپنے آبا واجداد کو جو کہ بت پر ستی میں مبتلا تھے کتنی خو بصو رتی سے سبق دیا وہ قر آن کی زبا ن میں سنئے۔ پہلے ایک ستا رے کو دیکھا اور فر ما یا کہ یہ میرا رب ہے۔لیکن تھو ڑی دیر کے بعد وہ معدو م ہو گیا تو فر ما یا نہیں،نہیں معدو م ہو جا نے والا میرا رب نہیں ہو سکتا اس کے بعد چا ند کو دیکھا اور فر ما یا کہ یہ میرا رب ہے۔مگر چند گھڑیو ں کے بعد وہ بھی غا ئب ہو گیا تو فرما یا یہ بھی میرا رب نہیں ہو سکتا،پھر سورج کو طلو ع ہو تے ہو ئے دیکھا اور فر ما یا یہ میرا رب ہے۔ کیو نکہ یہ سب سے بڑا ہے(اور زیادہ چمکدار بھی) مگر جب وہ بھی غرو ب ہو گیا تو فر ما یا کہ تغیر پذیرکوئی چیز رب نہیں ہو سکتی۔لہذا دعا فرمائی اے میرے رب تو ہی راستہ دکھا۔اور رب حدیث قدسی میں فر ما تا ہے کہ جو میری طرف ایک قدم بڑھتا ہے تو میں اس کی طرف دس قدم بڑھتا ہو ں۔ لہذا رب نے را ستہ دکھا دیا اور انہو ں نے علی الا علان کہنا شرو ع کر دیا کہ تم گمرا ہ ہو، جنہیں خو د اپنے ہا تھ سے گڑ ھتے ہوا ور انہیں  کوخدا بنا کے پو جتے ہو تم سا ا حمق کو ن ہو گا ؟ لہذا  با دشا ہ نے اس جر م میں حکم دیدیا کہ ان کو زندہ آگ میں جلا دیا جا ئے۔ وہ آگ میں ڈا ل دیئے گئے۔ اس مر حلے پر بعض روا یتیں یہ بھی ہیں کہ جبر ئیل علیہ السلام نے  انہں امداد کی پیس کش کی مگر وہا ں توکل کا یہ عا لم تھا فر ما یا نہیں مجھے میرا رب کا فی ہے۔اور رب نے کفا یت فرما ئی کہ فرمایا اے آگ تو ڈھنڈی ہو جا۔ اس نے تعمیل ِ حکم کی اور وہ اللہ کی حمد کرتے ہوئے آگ سے نکل آئے۔ یہ ہے قر آن کی زبا ن میں مسلما ن کی تعریف۔اس لئیے قر آن نے انکی زبا ن سے ان کو پہلا مسلم کہلا یا۔اب آپ پو چھیں گے کہ آگ کا کا م تو جلا نا تھا پھر اس نے جلایا کیو ں نہیں؟تو ایک با ت جا ن لیجئے کہ تما م صفا ت اللہ سبحانہ تعالیٰ کی ہیں جو کہ اس نے با نٹ رکھی ہیں۔جیسے کہ ہمیں خلیفہ بنا یا ہو ا ہے مگر فرق یہ ہے کہ ہمیں نا فر ما نی کی چھو ٹ بھی دی ہو ئی ہے جبکہ اورو ں کو نہیں ہے۔لہذا ہم سب سے زیا دہ نا فر ما نی کرتے ہیں جبکہ اور کر ہی نہیں سکتے۔یہا ں سے وہ سر خرو نکلے، یہ پہلا مر حلہ تھا جو انہیں پیش آیا۔ اور پھر تو مر حلے پر مر حلے پیش آتے رہے اور وہ میدان سر کرتے رہے حتیٰ کہ خو د اللہ سبحانہ تعا لیٰ نے فر ما یا کہ “  ہم نے  انہیں کئی با تو ں میں آز ما یا مگر وہ پو رے اترے   ًاس سے بڑی سند اور کس کی ہوسکتی اورکہا ں  سے لائی جا سکتی ہے۔یہ ہے ایک مو من کی شا ن۔اگر ہم خو د کو دیکھیں تو فورا ً اپنے پیر نظر آجا ئیں گے۔آئیے اب دوسرے امتحا ن کی طرف۔ انکی پہلے سے ایک بیو ی مو جو د ہیں جن کا نا م حضرت سا ئرہ (رض) ہے لیکن وہ اولاد کی نعمت سے محروم ہیں اور خود حضرت ابرا ہیم علیہ اسلام بھی عمر کے اس حصہ میں ہیں جہا ں اولاد پیدا کر نے کی صلا حیت ختم ہو جا تی ہے۔ دوسری بیو ی حضرت حا جرہ (رض) سے ایک بچہ ہے جس سے ان کا نا م چلنے کی واحد امید ہے۔ لیکن حضرت سا ئرہ (رض)  کے لیے دو نو ں ما ں اوربیٹے کا وجو د ناقا بلِ بر داشت ہو جاتاہے اور وہ ان سے جان چھڑا نا چاہتی ہیں حضرت ابراہیم علیہ السلام پریشان ہیں۔ اب آگے اس مسبب الا سبا ب کا اپنا منصو بہ شروع ہو تا ہے۔ وہ دنیا کو ایسی دا ئمی عبا دت گاہ دینا چا ہتا ہے جو ہر قسم کے تغیر سے محفو ظ ہو۔حضرت حا جرہ (رض) اور حضرت اسمٰعیل علیہ اسلام کو ایک وطن بھی عطا کر نا چا ہتا ہے۔ تاکہ وہ خلیل اللہ پر اپنے انعامات کی تکمیل کردے کہ اپنے محبوب صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کو ان کی نسل میں سے پیدا فر مائے اور پھر ایک عظیم امت کو حکم دے کہ وہ قیامت تک  ان پر اور ان کی اولاد پردور بھیجتے رہیں اور ان کی سنت کو بھی زندہ رکھے۔لہذا حکم ہو تا ہے کہ ما ں اور بیٹے کو وادی ِغیر مزرو عہ میں چھو ڑ آ ؤ۔ وہ تعمیل ِ ارشاد با ری تعا لی ٰ میں بلا چو ں وچرا روانہ ہو جا تے ہیں اور انہیں و ہا ں چھو ڑ کر الٹے پا ؤ ں وا پس مڑ نے لگتے ہیں تو حضرت حا جرہ (رض) پیچھے پیچھے تشریف لا تی ہیں اور پو چھتی ہیں کہ ہمیں آپ یہا ں کیو ں چھو ڑے جا رہے ہیں کیا مجھ سے کو ئی کو تا ہی ہو ئی ہے یا اللہ تعا لیٰ کا حکم ہے۔ وہ خا مو ش رہتے ہیں کہ یہ اللہ وا لو ں کا خا صاہے کہ وہ کبھی اللہ تعا لی کے را ز ظا ہر نہیں کر تے۔ جس طر ح ہم یہ نہیں پسند کرتے کہ ہما را کو ئی دو ست ہمارے راز دنیا بھر میں گا تا پھرے اسی طرح وہ بھی یہ پسند نہیں فر ماتا کہ اس کے راز ظا ہر کیئے جا ئیں،جو کہ اس نے تھو ڑے بہت کسی کو بتا دیے ہیں۔کیو نکہ اس کے راز تو کا ئینا ت کے رازہیں ان کا اظہار دنیا کی تبا ہی کا با عث بھی ہو سکتاہے۔ وہ جواب نہیں دیتے ہیں۔ حتیٰ کے وہ تین دفعہ پو چھتی ہیں اب وہ مجبو ر ہو جا تے ہیں فر ما تے ہیں کہ اللہ کا حکم ہے۔یہ سن کر انہیں اطمینان ہو جاتا ہے کہ اگراللہ کا حکم ہے تو وہ مسبب الا سبا ب ہے۔ اور انہیں یہ بھی ترد دنہیں رہتاکہ میرے پاس کچھ کھا نے کو نہیں، بچے کا ساتھ ہے، پینے کے لیے پا نی بھی نہیں ہے اور نہ سر پر سا یہ نا م کی کو ئی چیز ہے ہم زندہ کیسے رہیں گے؟وہ انکے پا ؤ ں کی بیڑی نہیں بنتی ہیں۔ حا لا نکہ وہ جا نتی ہیں کہ اب ان کے شو ہر کی منزل ان کی سو کن سا ئرہ(رض) ہیں۔ شک جنم لے سکتا تھا وسوسے جنم لے سکتے تھے،مگر وہ ایک جلیل القدر پیغمبر کی بیو ی اور دو ہو نے وا لے جلیل القدر پیغمبرو ں کی ما ں تھیں لہذا اللہ پر پو را بھرو سہ تھا۔ یہ توکل کی انکے مثا ل تھی،اور میا ں بیو ی کے با ہمی اعتما د کا نمو نہ بھی۔خدا پر جو اعتماد کرتا ہے خدا اس کی ہمیشہ کفا لت کرتا ہے۔ یہا ں بھی کی،وہ پا نی کی تلا ش میں دو ڑ رہی تھیں بچہ پیا س سے تڑپ رہا تھا ،جب وہ آخری چکر لگا کر واپس تشریف لا ئیں تو دیکھا کہ بچہ جہا ں ایڑ یا ں رگڑ رہا تھا وہا ں پا نی کا چشمہ جا ری ہو گیاہے۔ پا نی دیکھ کر پرندے آگئے اور پرندو ں کو دیکھ کر قا فلہ آگیا اور اس طرح دنیا کے قدیم شہر  ُام القریٰ   ًکی بنیاد پڑی جو کہ پہلے بکہ کہلا یا اور پھر کثرت ا ستعما ل سے مکہ ہو گیا۔ جس کو قیا مت تک کے لیے عبا دت گا ہ بنناتھا،جس میں کفار کا دا خلہ قیا مت تک کے لیے ممنو ع ہے۔ جس کو ابرا ہہ کے حشر دیکھنے  کے بعد شا ید ہی کو ئی طا لع آزما دو با رہ اسے ڈھا نے کی جرا ء ت کرسکے۔ اب آئیے تیسرے امتحا نکی طرف۔ اس مرتبہ ایک عرصہ کے بعد وہ پھر تشریف لا تے ہیں۔ اور ایک با لکل ہی انہو نی با ت فر ما تے ہیں کہ خدا نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں بیٹے کی قر با نی دو ں۔ایسی مثال تاریخ عا لم میں کبھی سنی ہی نہیں گئی کہ اللہ تعا لیٰ نے کسی بندے کی جا نی قر با نی ما نگی ہو وہ تو حیات عطا کر نے والا ہے۔ مگر انہو ں نے اس انہو نی بات پر بھی خدا کے آگے سر جھکا دیا۔ پھر وہ بیٹے سے با ت کرتے ہیں۔ بیٹے کی سعا دتمندی ملا حظہ فر ما ئیے کہ وہ بھی کو ئی سوال نہیں کرتے،فر ما تے ہیں کہ اگر آپ کوحکم ہوا ہے تو آپ کر گزئیے انشا اللہ مجھے صا برین میں پا ئیں گے۔آگے تو آپ سب ہی کو پتہ ہے کہ ما ں بچے کو تیا ر کر دیتی ہیں، بیٹاکہتا ہے با با آپ اپنی آنکھوں پر پٹی با ند ھ لینا تاکہ ذبح کرتے وقت ترس نہ آئے مگراللہ تعا لیٰ کو جا ن نہیں لینا تھی۔صر ف نیت اور خلو ص دیکھنا تھا۔لہذا اس نے  اس قر با نی کو کسی اور کی قر با نی سے بدل دیا۔ یو ں یہ پورے کا پورا کنبہ باپ بیٹے اور بیوی کے با ہمی تعا ون سے اسقدر عظیم ہو گیا کہ اللہ تعا لیٰ نے انکے ہر،ہر فعل کو شعا  ئر ِ حج میں دا خل کر دیا اور میا ں بیوی کے اس اعتماد کی کہا نی کوہمیشہ کے لیے قر آن میں بھی محفو ظ کر دیا۔ جس کی حفا ظت کی ذمہ داری خو د اس نے لے رکھی ہے۔اگر اس میں سے ایک بھی عدم تعاون کرتا تو کیا یہ عظیم کا میا بی ہو سکتی تھی؟ اس میں جو سبق ہے وہ آپ کے لیئے چھو ڑتا ہو ں۔     

سلطنت اسمانی کے دور کی کعبہ اور مسجد حرام کی ایک تاریخی تصویر
١٩ صدی
Website |  + posts

Dr. Shams Jilani is Canada based senior Urdu Columnist, Social worker & Islamic writer. A senior member of many multicultural advisory boards of City of Richmond, British Columbia, Canada. His more than four thousand columns on diverse issues has appeared in many international Urdu newspapers of UK, Pakistan, Canada & USA in addition to more than twenty two books.