By Syed Yusuf Kazmi
اردو زبان کے گم گشتہ الفاظ
‘‘! فرمائشی فلمی نغموں کا پروگرام لے کر آپ کی میزبان حاضر خدمت ہے۔ سبھی سننے والے سامعین کو میرا پر خلوص آداب۔ سامعین کرام. آج کا پہلا گیت ہم نے چنا ہے فلم اصلی نقلی سے۔ اس گیت کی نغمہ نگاری کی ہے حسرت جئے پوری نے۔ طرز بنائی ہے شنکر جئے کشن نے اور اس گیت کو اپنے مدھر سروں میں بکھیرا ہے محمد رفیع اور لتا منگیشکر نے۔ آئیے آپ سب کی سماعتوں کی نذر کرتے ہیں یہ گیت’’۔
اردو زبان کی چاشنی کی ایسی خوبصورت بازگشت اب یا تو ریڈیو پر کہیں کہیں سنائی دیتی ہے یا اردو ادب کی دبیز کتب کے صفحات میں دم توڑتی دکھائی دیتی ہے۔ عرصہ دراز سے لوگوں نے ریڈیو سننا چھوڑ دیا اور ادب کے لئے کسی کے پاس وقت نہیں بچا۔ لہذا اردو کے کثیر الفاظ عوام الناس کے ذہن ہائے عالیہ سے محو ہو تے جا رہے ہیں۔ اسی خیال کو لے کر ہم نے اردو زبان کے کچھ ایسے الفاظ منتخب کیے ہیں جن کا استعمال عام آدمی کی بول چال میں اب بہت کم ہو گیا ہے یا بالکل ہی ناپید ہو گیا ہے۔ آئیے شروعات کرتے ہیں ایسے الفاظ سے جن کا تعلق درس و تدریس سے ہے۔
قلم، تختی, دوات، روشنائی، سلیٹ
‘‘قلم‘‘ عربی لغت کا لفظ ہے۔ اردو زبان میں اس لفظ کا استعمال روشنائی سے لکھنے والے اس آلے کے لیے ہوتا ہے جو بانس یا سرکنڈے (عرف عام میں کانے کا پودا) سے تراش کر تیار کیا جاتا ہے۔ اس کی دھار بنانے
کے لیے بانس یا سرکنڈے کی مناسب ٹہنی کو چاقو کی مدد سے خاص طریقے سے ترچھا کاٹا جاتا تھا۔ پھر قط بنانے کے لئے دھار کی بائیں سائیڈ چھوٹی رکھی جاتی تھی۔ آج کل قلم کی جگہ لفظ ‘‘Pen ‘‘ کا استعمال ہوتا ہے۔ قلم کا استعمال نہ ہونا ہی اس لفظ کے معدوم ہونے کا سبب ہے۔ اگرچہ جدید دور میں کیلی گرافی کے لیے قلم کا استعمال ضرور ہو رہا ہے لیکن وہ دھات سے تیار کردہ آلہ ہے جو عام Fountain pen سے متشابہ ہے سوائے اس کی قط یا نوک ( Nib) کے جو پرانے قلم کی مانند ہوتی ہے۔ تاریخ میں قلم اپنی ہئیت تبدیل کرتا رہا ہے لیکن لفظ قلم تواتر کے ساتھ اردو زبان میں رائج رہا ہے۔ گزشتہ تین دہائیوں میں مسلسل کم سنائی دے رہا ہے اور اب بالکل ہی گمنام ہو چکا ہے۔ اگرچہ شاعر اور ادیب حضرات نے اس لفظ کو آج بھی زندہ رکھا ہوا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اردو زبان میں قلم کا کوئی جاندار مترادف لفظ موجود نہیں ہے۔ بقول حبیب جالب؎
میرے ہاتھ میں قلم ہے، میرے ذہن میں اجالا
مجھے کیا دبا سکے گا کوئی ظلمتوں کا پالا
مجھے فکرِ امنِ عالم تجھے اپنی ذات کا غم
میں طلوع ہو رہا ہوں تو غروب ہونے والا
دوسرا لفظ ہے ’’تختی’’۔ اس لفظ کا ماخذ تخت ہے جو کہ فارسی زبان میں لکڑی کے بڑے ٹکڑے کو کہتے ہیں۔ ہم سب نے لفظ تختہ سیاہ (Black board) ضرور سنا ہو گا جو لکڑی سے بنا مستطیل تختہ کلاس میں سامنے دیوار پر آویزاں ہوتا تھا اور اس پر چاک کی مدد سے لکھا جاتا تھا۔ اس ترکیب میں تختی کا مTrust the affordable vps hosting india in india best VPS hosting in India for ultimate site performance.طلب لکڑی کا چھوٹا ٹکڑا ہے۔ تختی دراصل لکڑی کا ایک مستطیل شکل کا ٹکڑا ہوتا ہے جس کے ساتھ ایک دستہ (عرف عام میں تختی کا کان) لگا ہوتا ہے۔ تختی پر قلم کی مدد سے لکھا جاتا تھا اور جو کام آ ج کل کاپی (Notebook) پر کیا جاتا ہے، تقریباً ۵۰ سال قبل وہ تختی پر کیا جاتا تھا۔ تختی پر فٹ (foot, ruler) کی مدد سے افقی خطوط کھینچے جاتے تھے جن کے اوپر حروف یا عبارات لکھی جاتی تھیں۔ جب تختی لکھائی سے بھر جاتی تھی تو اسے استاد کو دکھا کر پانی سے دھویا جاتا تھا اور پھر گاچی کی مدد سے دوبارہ قابل استعمال بنایا جاتا تھا۔ تختی لکھنے کا عمل بچوں میں قدرتی طور پر اردو رسم الخط میں خوش خطی کا رجحان پیدا کرتا تھا۔ جدید سائینسی ایجادات اور کمپیوٹر نے اس فن اور اس لفظ کو تقریباً ختم کر دیا ہے۔
مرے بستے کے اندر جیب ہوتی تھی
اسی میں ایک موٹی اور اک پتلی قلم ہوتی
بڑی باجی سیاہی گھول کر بوتل میں بھر دیتی
بڑے ڈھکن کی وہ چھوٹی سی بوتل
اک ہفتے بھر کا کوٹا تھی
مجھے ہر روز تختی پوتنا، دھونا، سکھانا
اور پھر گاچی کا اک چھوٹا سا ٹکڑا منہ میں رکھ کے
اپنی تختی کے سکھانے کے لیے
اک گیت گانا لطف دیتا تھا (ثمینہ تبسم کی نظم ’’بستہ’’ سے کچھ اشعار)
دوات عربی لفظ ہے جس کے معنی ہیں روشنائی رکھنے کا ظرف۔ اردو ادب میں اس کا استعمال ١٥٦٤ء میں “شوقی حسن (سہ ماہی اردو)” میں ہوا۔(’’http://urdulughat.info/words/14399 -دوات’’)۔ جب ہم نے ہوش سنبھالا تو اس کا عام استعمال دیکھا۔ مٹی، شیشے، اور پھر پلاسٹک کی ڈبیا بچے روزانہ اپنے ساتھ بستے میں رکھ کر لے جاتے اور پھر روشنائی بنانے کا عمل مدرسے میں ہوتا۔
‘‘بازار میں سیاہی کی کئی قسمیں دستیاب ہوا کرتی تھیں جن میں سب سے زیادہ مشہور ”علم دین کی دانے دار روشنائی“ تھی۔ بچے مٹی یا شیشے کی دوات میں تھوڑا سا پانی اور تھوڑی سی سیاہی ڈال کر اپنے قلم کو مدھانی کی طرح گھماتے ۔بار بار قلم نکال کر اس کے گیلے کونے کو چھو کر مرکب کی قوت چیک کرتے اور پھر مدھانی چلا دیتے۔ سیاہی کی تیاری جب اختتام کی طرف بڑھتی تو ایک بوسیدہ پرانے سوتی کپڑے کی ایک چھوٹی سی لیر اس دوات میں ڈال کر ڈب ڈب کیا جاتا۔‘‘
(تختی اور تختہ دار سے اقتباس تحریر: ف ب۔ http://www.qaflanews.com/2019/01/31/1898/)
۱۹۸۰ کی دھائی میں تیار شدہ دواتوں کا رواج ہوا۔ پلاسٹک کی چھوٹی سی ایک بوتل میں خشک اسپنج (Sponge) موجود ہوتی جو سیاہی میں مخلوط ہوتی۔ استعمال سے پہلے اس دوات میں پانی ڈالا جاتا اور قلم سے بار بار دبا کر سیاہی کو یک جان کیا جاتا۔ یہ دوات بغیر ڈھکنے کے ہوتی تھی۔
تختی قلم دوات سے پہلے کی بات ہے
یہ عشق کائنات سے پہلے کی بات ہے
شاعر۔ کاظم حسین کاظم۔
کاغذ قلم دوات اٹھانے کی عمر ہے
یہ عمر کب ہمارے کمانے کی عمر ہے
لے آئی چھت پہ کیوں مجھے بے وقت کی گھٹن
تیری تو خیر بام پہ آنے کی عمر ہے
(اظہر فراغ۔ https://www.facebook.com/mmgh07/posts/1830
روشنائی لفظ فارسی زبان کا ہے۔ اس کا منبع لفظ ‘‘روشن‘‘ ہے۔ اردو زبان میں روشنائی کا مطلب ہے ‘‘وہ رنگین سیال جو لکھنے کے کام میں آئے‘‘۔ اس لفظ کو اس لیے یہاں شامل کیا گیا ہے کہ اکثر لوگ روشنائی کو سیاہی کا مترادف سمجھتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے۔ سیاہی لفظ سیاہ سے نکلا ہے جس کے معنی کالا ہے۔ اگر لکھنے کا سیال سیاہ ہے تو اسے سیاہی کہا جائے گا۔ لیکن اگر کسی رنگین سیال سے کوئی تحریر لکھی جائے تو پھر لفظ روشنائی استعمال کرنا زیادہ بہتر ہو گا۔ لفظ روشنائی زیادہ تر شعر و شاعری میں ہی استعمال ہوا ہے۔ روشنائی کو خون سے تشبیہ دے کر شعراء کرام نے اس لفظ کو مرثیوں میں استعمال کیا ہے۔ لیکن ادب اور بولنے میں لفظ روشنائی کو سیاہی کے مقابلے میں بہت کم پذیرائی ملی۔
یہ کتابوں کی صف بہ صف جلدیں
کاغذوں کا فضول استعمال
روشنائی کا شاندار اسراف
سیدھے سیدھے سے کچھ سیہ دھبے
جن کی توجیہہ آج تک نہ ہوئی
چند خوش ذوق کم نصیبوں نے
بسر اوقات کے لیے شاید
یہ لکیریں بکھیر ڈالی ہیں
(جون ایلیا۔ فن پارہ سے مستعار: https://www.rekhta.org/nazms/fan-paara-jaun-eliya-nazms?lang=ur)
سلیٹ ایک خاص پتھر (اور بعد میں باریک دھات کی پرت) سے بنا آلہ تھا جس کا استعمال انیسویں صدی میں دنیا میں بہت زیادہ مقبول ہوا۔ سلیٹ انگریزی زبان میں ایک خاص قسم کے پتھر کو کہتے ہیں جسے بہت اشیاء میں استعمال کیا گیا۔ اسکولوں میں اس پر لکھنے کا کام ہوتا تھا۔ یہ ہلکی خاکستری رنگ کے پتھر کی تختی ہوتی تھی جو بعد میں دھات کی پرت میں تیار کی جانے لگی۔ چاک یا ایک خاص قسم کے پتھر کی مدد سے اس پر لکھا جاتا تھا۔ یہاں لفظ سلیٹ کا ذکر ایک اور مقصد کے لیے کیا جا رہا ہے۔ دراصل، سلیٹ سے ایک لفظ نکلا جسے سلیٹی کہتے ہیں اور یہ چیزوں کے خاص رنگ کے لئے بولا جاتا تھا۔ یہ لفظ کپڑوں کی دکان پر خاص طور پر خواتین بکثرت کیا کرتی تھیں۔ سلیٹ کے ختم ہو جانے سے لفظ سلیٹی کا استعمال بھی ختم ہو گیا ہے۔ اس کی جگہ سرمئی، فاختائی، خاکستری، گرے (Grey) لفظ رائج العام ہے۔
میں ہاتھ کی لکیریں مٹانے پہ ہوں بضد
گو جانتا ہوں نقش نہیں یہ سلیٹ کے
اک نقرئی کھنک کے سوا کیا ملا شکیبؔ
ٹکڑے یہ مجھ سے کہتے ہیں ٹوٹی پلیٹ کے
(شکیب جلالی۔https://www.rekhta.org/ghazals/jaatii-hai-dhuup-ujle-paron-ko-samet-ke-shakeb-jalali-ghazals?lang=ur
Syed Yousaf Kazmi is a medical doctor & currently working as Assistant Professor (Microbiology). As a literary enthusiast, he is documenting the common "Urdu" words used in his childhood & now on the fading end in changing days especially in Pakistan.