کاٹھ کباڑ
اک درویش سے لے آیا ہوں دے کر شور کا کاٹھ کباڑ
ہجر کی لکڑی، چپ کی ہانڈی اور چولہا خاموشی کا
دانش عزیز
کاٹھ کباڑ ایک اردو مرکب لفظ ہے۔ یعنی کاٹھ اور کباڑ سے مل کر بنا ہوا۔ کاٹھ سنسکرت زبان سے ماخوذ ہے جس کے معنی لکڑی کے ہیں۔ اسی سے لفظ کاٹھی نکلا ہے جو لکڑی سے بنائی ہوئی نشست ہوتی ہے اور جسے سوار کے لیے اونٹ وغیرہ کی کمر پر کس دیا جاتا ہے۔ آج سے چند سو سال قبل اس کا استعمال لمبے سفر کے لیے کیا جاتا تھا۔ مسلمان حجاج مکہ جانے کے لیے اونٹوں پر سفر کرتے تھے جس پر کاٹھی ڈال کر مسافروں کے سفر کو آرام دہ بنایا جاتا تھا۔
لکڑی کی کاٹھی کاٹھی پہ گھوڑا
گھوڑے کی دم پہ جو مارا ہتھوڑا
دوڑا دوڑا دوڑا گھوڑا دم اٹھا کے دوڑا
کاٹھ گڑھ سادات پاکستان کا ایک آباد مقام جو ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں واقع ہے۔ اس شہر کے نام کی وجہ تسمیہ کے بارے میں کچھ بزرگوں کا یہ کہنا تھا کہ چونکہ یہ جگہ دریاۓ سندھ کے کنارے واقع ہے، اس لیے دریا میں بہہ کر آنے والے درختوں کو یہاں سے نکال کر جمع کیا جاتا تھا۔ ان لکڑیوں کے ٹکڑوں کو یہاں کی پرانی زبان میں ‘کاٹھ’ کہا جاتا تھا، اور ‘گڑھ’ کا مطلب ہوتا ہے مرکز یا جگہ۔ اسی وجہ سے اس جگہ کا نام ‘کاٹھ گڑھ’ پڑ گیا۔
کاٹھ یا کٹھ سے نکلا ایک لفظ کٹھ پتلی ہے جو پرانے زمانے میں لوگ لکڑی کی گڑیا یا انسانی شکل کی مورتیوں کو ڈور کی مدد سے حرکت دیتے اور حاضریں کو محضوظ کرتے تھے۔ ہندوستان اور پاکستان فلم انڈسٹریز میں بہت نغمات کٹھ پتلی کے مرکزی خیال پر عکس بند کیے گئے ہیں۔

کٹھ پتلی تھیٹر کا منظر، تخلیقی اظہار اور ثقافتی ورثے کا حسین امتزاج
لفظ گٹھ جوڑ کے بارے میں بھی یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ کٹھ جوڑ کی بگڑی ہوئی شکل ہے یعنی لکڑی کا دوسری لکڑی سے جوڑ۔ مگر اس کا اصل منبع گانٹھ جوڑ بتایا جاتا ہے جیسے بر صغیر میں ہندو مذہب میں دلہن اور دلہا کے لباس کو گانٹھ لگا کر ازدواجی رشتہ قایئم کیا جاتا ہے اور پھیرے لیے جاتے ہیں۔
لفظ کٹیا کے بارے میں بھی یہی خیال کیا جاتا ہے کہ یہ کاٹھیا سے نکلا ہے۔ لفظ "کٹیا” ہندی اور اردو دونوں زبانوں میں مستعمل ہے اور اس کا مطلب ایک چھوٹی، سادہ اور عارضی جھونپڑی یا مکان ہوتا ہے، جو عام طور پر غریب یا دیہی علاقوں میں رہائش کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ اس لفظ کی جڑیں سنسکرت کے لفظ میں ملتی ہیں، جس کا مطلب بھی جھونپڑی یا کچا مکان ہے۔
بجلی چمک کے اُن کو کُٹیا مری دکھا دے
جب آسماں پہ ہر سُو بادل گھِرا ہوا ہو
دوسرا لفظ کباڑ لفظ سنسکرت زبان کا ہے جس کے معنی ہیں کھیت کی گھاس، جڑیں، اور خود رو نباتات وغیرہ جس کو ہل چلانے سے پہلے صاف کرنا پڑتا ہے۔ لفظ "کباڑ” اردو زبان میں عام طور پر پرانے، ٹوٹے پھوٹے یا ناکارہ اشیاء کے لیے استعمال ہوتا ہے جو بظاہر بےکار ہوں لیکن کبھی کبھار دوبارہ قابلِ استعمال بن سکتی ہیں۔ "کباڑ” کا مطلب ہے ایسا سامان جو پرانا ہو چکا ہو، جسے لوگ عام طور پر پھینک دیتے ہیں یا کم قیمت پر بیچ دیتے ہیں۔ کباڑی وہ شخص کہلاتا ہے جواس طرح کا سامان خریدتا اور بیچتا ہے، جب کہ کباڑ خانہ ایسی جگہ کو کہتے ہیں جہاں یہ سب سامان جمع ہو۔
قبل مسیح (۷۰۰ ) کے زمانے میں ہی مختلف تہذیبوں نے کباڑ اور فالتو دھاتوں کو دوبارہ استعمال کرنا شروع کر دیا تھا۔ مثال کے طور پر، رومی لوگ اکثر پرانے کانسی کے سکّے پگھلا کر ان سے کانسی کے مجسمے بنایا کرتے تھے، کیونکہ ان کا ماننا تھا کہ یہ مجسمے سکّوں کے مقابلے میں زیادہ قیمتی ثابت ہو سکتے ہیں۔ جنگ عظیم اول اور دوم میں کباڑیوں کا کام بہت ہی اہمیت کا حامل ہو گیا تھا۔ کباڑیے گھریلو کباڑمثلا دھات کی اشیا کو اکٹھا کر کے کباڑ خانے لے جاتے تھے اور انہیں مختلف جنگی آلات میں تبدیل کیا جاتا تھا۔

عمریں گزر جاتی ہیں
شہروں میں اور ملکوں میں
لکڑی کے صندوق اور پیٹیاں ہماری جان نہیں چھوڑتیں
گھروں میں کوئی جگہ نہ ہو
تو دلوں اور ذہنوں کے کباڑ خانوں میں رکھی رہتی ہیں
کبھی نہ کُھلنے کے لیے
اور پھر ایک دن ہم خود بند ہو جاتے ہیں
زمین پر آخری دن آنے سے پہلے
ہمارے دن پورے ہو جاتے ہیں
رانا غلام محمد ریختہ نگر فیس بک