نقشبندیہ اور احرار: تاریخ کی روشنی میں
بر صغیر پاک و ہند میں اسلام کی تبلیغ میں مسلمان بادشاہوں نے کوئی متحرک کردار ادا نہیں کیا، لیکن ان کی فتح ہند کی وجہ سے ہند کا راستہ ضرور کھل گیا۔ وسط ایشیا اور مغربی ایشیا سے آنے والے مہاجروں میں صوفیوں کی ایک بڑی تعداد بھی شامل تھی، جنہوں نے اسلام پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا۔پاک و ہند کے صوفی سلسلوں میں کثیر تعداد چشتیہ کی ہے، اُس کے بعد نقشبندی، قادری اور دوسرے کم معروف سلسلے آتے ہیں۔ نقشبندی سلسلہ یہاں وسط ایشیا سے پہنچا۔ پہلے مغل حکمراں ظہیر الدین بابر کی فتح ہندوستان نے اس میں بڑا کردار ادا کیا۔ اِس فتح کے بعد وہ پیر فقیر جن پر وسط ایشیا کی زمین تنگ ہو گئی تھی یا وہ حضرات جو مغل بادشاہوں سے رشتے قائم رکھنا چاہتے تھے عرصہ دراز تک ہندوستان آتے جاتے رہے، کچھ ان میں سے ہندوستان میں ہی بس گئے۔
نقشبندی سلسلہ پندھرویں صدی عیسوی سے مشہور ہے۔ اِس سے پہلے یہ سلسلہ طریقہ خواجگان کہلاتا تھا۔ داراشکوہ نے سفینتہ الاولیا میں اس کو سلسلہ خواجگان ہی لکھاہے(۱)۔ طریقہ خواجگان کی ابتدا ۱۱۴۰؍۵۳۵ھ میں شیخ یوسف ہمدانی سے ہوئی تھی۔ تبدیلی نام کی وجہ وسط ایشیا کے اِس سلسلے کے ایک بڑے صوفی خواجہ بہا الدین نقشبندی کے نام کی وجہ سے ہے۔ یہ خواجہ بخارا میں مدفون ہیں۔ آپ کا زمانہ ۱۳۸۸؍۷۹۱ھ ہے۔ اِسی سلسلے کے ایک اور بزرگ خواجہ عبد الحق غجدوانی نے طریقہ خواجگان (۲)کے آٹھ اصول بتا ئے ہیں(۱) ہوش در دم(۲) نظر بر قدم(۳)سفر در وطن (۴) خلوت در انجمن (۵) یاد کرد (۶) باز گشت (۷) نگاہ داشت (۸) یاد داشت۔ اِس کے بعد بھی کچھ اصول اپنائے گئے۔ نقشبندیوں میں ایک بڑا اصول خلوت در انجمن ہے، جس سے مراد ہے کہ زندگی عوام میں مل جل کر بسر کرنی چاہیے، لیکن خدا سے لو لگائے رکھنا کہ یہ محسوس ہو کہ آس پاس کوئی نہیں۔ خواجہ بہا الدین کہا کرتے تھے کہ میرا طریقہ ‘ انسانوں کی صحبت ہے’(۳)۔ اس طریقے پر عمل کرنے والے صوفی نہ صرف انسانوں سے بلکہ بادشاہوں سے بھی تعلقاقت قائم رکھ کر عام انسانوں کی بھلائی کے کام کروانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔
نقشبندیوں میں شرعیت کی سخت پابندی ہے(۴)۔ شرعیت کے زیر اثر کسی سے نذر و نیاز قبول نہیں کرتے، اپنی آمدنی کے لیے کوئی نہ کوئی پیشہ ضرور اپناتے ہیں۔ خواجہ بہا الدین کے ہاں زردوزی، گل کاری کا کام تھا،یعٰنی مشجر و چکن وغیرہ تیار ہوتے تھے، اسی کام کی وجہ سے وہ نقشبند کہلائے(۵)۔ خواجہ اپنے مریدوں کو بھی کوئی پیشہ اپنانے پر زور دیتے تھے۔ انہوں نے اپنے ایک مرید کو رقم دے کر کہا تھا ‘زمین پر جا کر محنت کرو’ ان کے دوسرے مرید بھی کسان اورقصائی کا کام کرتے تھے۔ اسی سلسلے کے ایک صوفی سید امیر کلال مٹی کے برتن بنا یا کرتے تھے۔ اُن کی اولاد تجارت کرتی تھی، دوسرے بیٹے نمک کی تجارت کیا کرتے تھے۔چوتھے بیٹے خربوزوں کی خرید و فروخت کیا کرتے تھے۔ سید امیر کلال علم حاصل کرنے پر بھی زور دیتے تھے۔ اُن کی نظر میں ایک علم ‘خرید و فروخت’ بھی ہے، یعٰنی بزنس اڈمنسٹریشن۔ اُن کا کہنا تھا کہ یہ کسب حلال کے لیے ضروری ہے۔ لقمۂ حلال ہونا اُن کی انتہائی ضرور ت تھا (۶)۔ خواجہ عبید اللہ احرار کی آخیر وقت میں بڑی کھیتی باڑی اور تجارت تھی۔
نقشبندی اصولی طور پر کوئی ایک لباس نہیں پہنتے، کبھی نمائشی طرز نہیں اپناتے(۷) غلام اور لونڈیاں یا نوکر نہیں رکھتے، موسیقی سے سخت پرہیز کرتے ہیں۔ یہ عوام میں جہاں رہتے ہیں اُن کی طرز پر مل جُل کر رہتے ہیں۔ نقشبندی سلسلہ وسط ایشیا، افغا نستان، پاک و ہند اور مغربی ایشیا جیسے ترکی اور ایران میں کافی مقبول رہا ہے (۸)۔ ایران میں صفوی حکومت کی سختی کی وجہ سے اِس کا اثر کم ہوگیا ہے۔
خواجہ عبید اللہ احرار
نقشبندی سلسلے کے یہ بزرگ تاشقند کے قریب ایک گاؤں باغستان میں ۱۴۴۰؍۸۰۶ھ میں پیدا ہو ئے۔ انہوں نے اس صوفی سلسلے اور اپنے اثر و رسوخ کی وجہ سے گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔ اُن کا نام عبید اللہ اور اُن کا لقب ناصر الدین احرار ہے۔ ان کی ابتدائی زندگی بہت عسرت میں گزری۔ جب آپ کی عمر ۲۲ سال کی ہو ئی تو آپ کے ماموں (یا خالو) (۹) آپ کو سمرقند تعلیم کے لیے لے کر گئے، لیکن ظاہری تعلیم کی طرف توجہ نہ تھی۔ باطنی علوم و صوفیوں کی صحبت کی طرف جھکاؤ تھا۔ خواجہ سمرقند میں دو سال گزارنے کے بعد ہرات گئے اور وہاں پانچ سال رہے اور اس دوران صوفیوں کی صحبت قائم کی۔ ہرات سے واپسی پر خواجہ یعقوب چرخی سے ہلاغتو میں بیعت کی اور نقشبندی طریقے میں معرفت حاصل کی۔ انتیس سال کی عمر میں تاشقند واپسی ہو ئی۔ تاشقند میں رہتے ہو ئے آپ کے تعلقات سلطان ابو سعید مرزا جو ظہیر الدین بابر کے دادا تھے، سے ہو ئی۔ سلطان پر ان کا گہرا اثر تھا۔ سلطان ہر کام اُن سے پوچھ کر کرتا تھا(۱۰)۔ ابو سعید کی خواہش پر ہی آپ نے تاشقند کو خیر آباد کہا اور سمر قند میں رہائش اختیار کی۔ خواجہ کے کہنے پر ہی ابو سعید نے غیر اسلامی ٹیکس جو تمغہ کہلاتا تھا، معاف کردیا۔ خواجہ احرار کا کہنا تھا کہ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ مسلمانوں کو ظلم و زیادتی سے بچائیں اور یہ سلطانوں اور بادشاہوں سے تعلقات قائم کرکے ہی ہو سکتا ہے۔ یونس خاں ظہیر الدین بابر کے نانا اور مغلوں کے سردار تھے۔ انہوں نے بہتر سال کی عمر پائی۔ آخر عمر میں انہوں نے فواہش سے توبہ کرلی تھی اور خواجہ کے معتقد ہو گئے تھے۔ خواجہ نے ان سےملاقات کرنے پر ان کو تعلیم یافتہ اور مہذب پایا۔ اس ملاقات کے بعد خواجہ نے اطراف کے حکمرانوں کے پاس خطوط روانہ کیے کہ یونس خاں کی مغل رعایا مسلمان ہیں اور ان کو غلام نہ بنایا جائے۔ اس سے پہلے ترکوں میں یہ عام رواج تھا کہ مغلوں کو ایمان سے بے بہرہ سمجھ کر عام طور پر غلام بنا لیا جاتا تھا(۱۱)۔
ظہیر الدین بابر کے والد سلطان عمر شیخ مرزا بھی خواجہ احرار کی بہت عزت کیا کرتے تھے اور اُن کو ملاقاتوں کے لیے بلاتے تھے۔ سلطان احمد مرزا بابر کے بڑے چچا خواجہ احرار کی بہت تعظیم کرتے تھے اور ادب کے ساتھ اُن کی محفل میں بیٹھا کرتے تھے، حتیٰ کہ پہلو بھی نہیں بدلتے تھے۔ ایک دفعہ مجلس میں سلطان احمد مرزا نے پہلو بدلہ تو خواجہ کو تعجب ہوا، خواجہ کے لوگوں نے اُس جگہ کو دیکھا تو وہاں ایک ہڈی پڑی ہو ئی تھی (۱۲)۔ ظہیر الدین بابر کی پیدائش کے جشن میں بھی خواجہ احرار تشریف لائے تھے۔ بچے کا نام ظہیر الدین بھی خواجہ ہی نے رکھا تھا۔
بابر آٹھ سال کا تھا جب خواجہ کا انتقال ہوا(۱۴۹۱؍۸۹۶ھ)۔ بابر نے ہمیشہ اُن کی قدر و منزلت کی۔ برے حالات کے زمانے میں جب بابرسمر قند فتح کرنے کا سوچ رہا تھا ، اُس وقت خواجہ اُس کے خواب میں آئے اور یہ بشارت دی کہ شیخ مصلحت نے تمہیں سمر قند دیا۔ شیخ مصلحت خجند کے معروف ولی ہیں۔ خواجہ کے شاگرد اور مرید مولانا قاضی کو بابر نے اپنا نائب بناکر اندجان میں چھوڑا تھا جب وہ خود سمرقند پر حملہ کرنے جا رہاتھا۔ ظہیر الدین بابر نے اپنی بیماری سے صحت یاب ہو نے کے لیے خواجہ احرار کا رسالہ والدیہ فارسی نثر سے ترکی نظم میں ترجمہ کیا، اس میں یہ خواہش شامل تھی کہ جس طرح قصیدہ بردہ کا مصنف قصیدہ لکھنے کی برکت سے فالج سے صحت یاب ہو گیا تھا اسی طرح مجھے بھی تندرستی نصیب ہو۔ خواجہ احرار کے ایک پوتے خواجہ عبد الحق ہندوستان آئے، بابر بہار کوفتح کرنے کے بعد واپس آگرہ پہنچا تو دوسرے ہی دن اُن کی خدمت میں حاضر ہوا۔ خواجہ کلاں، ایک دوسرے پو تے کو بابر نے ۱۵۲۸؍۲۹؍ ۹۳۵ھ میں وقائع بابر کا ایک قلمی نسخہ آگرہ سے سمرقند بھیجاتھا۔ ایک اور پوتے خواجہ محمد امین بابر کے ساتھ اُس کے معرکوں میں شریک رہے تھے۔ بابر نے اُن کا ذکر ۹۱۰؍۹۱۳؍۹۲۵ھ کے حالات میں کیا ہے۔
سمر قند فتح کرنے کا سوچ رہا تھا ، اُس وقت خواجہ اُس کے خواب میں آئے اور یہ بشارت دی کہ شیخ مصلحت نے تمہیں سمر قند دیا۔ شیخ مصلحت خجند کے معروف ولی ہیں۔ خواجہ کے شاگرد اور مرید مولانا قاضی کو بابر نے اپنا نائب بناکر اندجان میں چھوڑا تھا جب وہ خود سمرقند پر حملہ کرنے جا رہاتھا۔ ظہیر الدین بابر نے اپنی بیماری سے صحت یاب ہو نے کے لیے خواجہ احرار کا رسالہ والدیہ فارسی نثر سے ترکی نظم میں ترجمہ کیا، اس میں یہ خواہش شامل تھی کہ جس طرح قصیدہ بردہ کا مصنف قصیدہ لکھنے کی برکت سے فالج سے صحت یاب ہو گیا تھا اسی طرح مجھے بھی تندرستی نصیب ہو۔ خواجہ احرار کے ایک پوتے خواجہ عبد الحق ہندوستان آئے، بابر بہار کوفتح کرنے کے بعد واپس آگرہ پہنچا تو دوسرے ہی دن اُن کی خدمت میں حاضر ہوا۔ خواجہ کلاں، ایک دوسرے پو تے کو بابر نے ۱۵۲۸؍۲۹؍ ۹۳۵ھ میں وقائع بابر کا ایک قلمی نسخہ آگرہ سے سمرقند بھیجاتھا۔ ایک اور پوتے خواجہ محمد امین بابر کے ساتھ اُس کے معرکوں میں شریک رہے تھے۔ بابر نے اُن کا ذکر ۹۱۰؍۹۱۳؍۹۲۵ھ کے حالات میں کیا ہے۔
خواجہ احرار نے ادنیٰ پیمانے پر کھیتی باڑی شروع کی، جو بڑھتے بڑھتے کافی پھیل گئی۔
اُس کے ساتھ تجارت بھی جاری رہی، جس میں بھی ترقی ہو ئی۔
اس کو عوام کے فائدے میں جاری کرنے کے لیے آپ نے وقف قائم کیے۔ ان اوقاف میں سے انتہائی قلیل رقم اپنے خرچ کے لیے نکال کر باقی آمدنی شریعت کے اصولوں کے تحت عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کر دیتے تھے۔
خوجہ نے نقشبندی طریقےکو پھیلانے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ خواجہ کا تعلق خراساں میں مولانا جامی، علی شیر نوائی اور سلطان حسین مرزا سے تھا۔ ان حضرات سے مسلسل رابطہ بہ ذریعہ مرید، مسافران اور طالب علموں کے سفر کی وجہ سے رہا۔ اس کے علاوہ ان کے خلیفہ عبداللہ الہیٰ اناطولیہ سے تھے، انہوں نے ترکی میں نقشبندی طریقے کو پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا۔ سلطان محمددوم سلطان ترکی کا خواجہ سے غائبانہ تعارف تھا۔ اس نے ایک مصور بھیج کر خواجہ کی تصویر بھی بنوائی تھی۔ اس کے علاوہ خواجہ کے ایک مرید شیخ علی کردی قزوین میں جا کر بس گئے تھے۔ مولانا اتراری حجاز گئے، اور سراج الدین عبد الوہاب نے اسی سلسلے میں تبریز کا سفر کیا(۱۳)۔
خواجہ احرار کا سیاسی کردار
مرزا ابو القاسم بابر جو حکمراں ہرات تھا ،نے ۱۵۵۴ء میں سمرقند کو اپنے زیر نگیں لانے کے لیے حملہ کیا۔ سمرقند پر اُس وقت سلطان ابو سعید کی حکومت تھی۔ مرزا ابو القاسم بابر ڈیڑھ لاکھ فوج کے ساتھ چڑھ آیا، ابو سعید عجیب شش و پنج میں تھا کہ اتنی فوج کا کس طرح مقابلہ کرے۔ اس نے خواجہ احرار سے مشورہ کیا، خواجہ نے اس کی ہمت بڑھا ئی اور مشورہ دیا کہ محصور ہو کر مقابلہ کرو، ان شاء اللہ دشمن کو منہ کی کھانی پڑے گی۔ ابو القاسم بابر نے چالیس روز تک محاصرہ جاری رکھا۔ دونوں طرف کے لوگ مارے گئے اور گرفتار ہو ئے لیکن فیصلہ نہ ہو سکا،م آخر خواجہ کی معرفت معاہدہ ہوا، جس کے تحت سمرقند سلطان ابو سعید کے زیر اثر اور ہرات ابو القاسم کی زیر نگرانی ہی رہا (۱۴)۔
مرزا محمد جوکی نے شاہ رخیہ میں ۱۴۶۲؍۸۶۷ھ میں بغاوت کردی، ابو سعید نے شاہ رخیہ کا محاصرہ کرلیا، محاصرہ ایک سال تک جاری رہا، شاہ رخیہ کے عوام تنگ آگئے، کھانے پینے کو کچھ نہ رہا، یہ مشکلات دیکھ کر مرزا محمد جوکی نے اپنا ایلچی خواجہ کے پاس بھیجا اور صلح کی درخواست کی۔ خواجہ نے عوام کی تکلیف کا احساس کرتے ہو ئے سلطان ابو سعید سے صلح کی درخواست کی جو ابو سعید نے منظور کرلی اور عوام کو فاقہ کشی سے نجات ملی(۱۵)۔
یونس خاں، بابر کے نانا کو بابر کے والد نے مرغلان کا علاقہ ان کی مدد کے بعد تحفتاً دیاتھا، لیکن بابر کے چچا سلطان احمد مرزا اُس پر اپنا حق سمجھتے تھے، اس لیے یونس خاں اور سلطان احمد میں جنگ کی نوبت پہنچی، خواجہ نے ان دو نوکے درمیاں ۱۴۸۰ء؍۸۹۰ھ میں صلح کروائی(۱۶)۔
بابر کے والد اور چچاؤں کے درمیاں ۱۴۸۵ء؍۸۹۰ھ میں جنگ کے لیے فوجیں آمنے سامنے آگئیں، ایک طرف سلطان احمد مرزا اور دوسری طرف سلطان محمود مرزا اور عمر شیخ مرزا۔ سلطان احمد مرزا خواجہ کو اپنے ساتھ لے کر میدان جنگ کی طرف روانہ ہو ئے،میدان جنگ پہنچنے سے پہلے خواجہ نے سلطان احمد سے اجازت لی، ان کو چھوڑ کر اپنا خیمہ دونوں فوجوں کے درمیان گاڑ دیا۔ تینوں بھائیوں کو اپنے خیمے میں قا لین پر بٹھایا اور نصیحتیں کیں۔ عوام کا خون کرنے سے منع کیا۔ تینوں نے ان کی نصیحتوں کو قبول کیا اور جنگ و جدل سے باز رہے، نہ جانے کتنی جانیں ان کے اس صلح صفائی کے اقدام سے ضائع ہونے سے بچ گئیں(۱۷)۔
سلطان احمد مرزا نے ۱۴۸۷ء؍۸۹۲ھ میں بابر کے ماموں سلطان محمود خاں پر حملہ کردیا، یہ جنگ ‘چر کی لڑائی’ کے نام سے مشہور ہوئی، کہ یہ دریائے چَر کے قریب ہو ئی تھی۔ خواجہ احرارت نے سلطان احمد مرزا کو اس پر جانے سے منع کیا تھا، لیکن احمد مرزا نے اس مشورے کو نہ مانا اور شکست کھائی۔ شکست کے بعد خواجہ سے صلح کی درخواست کی، جو خواجہ نے قبول کی اور دونوں کے درمیاں صلح کروائی(۱۸)۔
خواجہ احرار کے خطوط
خواجہ احرار کو خط لکنے کا شوق تھا۔ یہ اُن کے مقاصد حاصل کرنے کا ایک عمدہ ذریعہ تھا۔ اُس وقت کے حکمرانوں اور اُن کے درباریوں تک رسائی کے لیے خواجہ اور ان کے ساتھیوں نے جو خطوط سمرقند سے ہرات روانہ کیے وہ ایک مجموعہ مراسلات میں اورئینٹل انسٹی ٹیوٹ تاشقند میں محفوظ ہیں۔ یہ شاید میر علی شیر نوائی نے ایک جگہ محفوظ کر لیے تھے۔ اب یہ خطوط انگریزی ترجمے کے ساتھ شائع ہو گئے ہیں(۱۹)۔ زیادہ تر خطوط سلطان حسین مرزا والیِ ہرات اور اُن کے درباری حکام سے متعلق ہیں۔ اندازہ ہے کہ دوسرے والیان ریاست جن سے خواجہ کے تعلقات تھے جیسے سلطان ابو سعید، سلطان احمد مرزا، محمود مرزا، عمر شیخ مرزا اور یو نس خاں کو بھی لکھے گئے ہونگے، لیکن وہ محفوظ نہ رہ سکے۔ یہ خطوط کل ۲۵۷ ہیں، زیادہ تر رقعات کی شکل میں مختصر ہیں۔ خط شکستہ میں لکھے گئے ہیں اور اُن کو پڑھنا دشوار ہے ، لیکن یہ خطوط ایک تاریخی ورثہ ہیں۔ اُس وقت کے حالات، بادشاہوں کے احکامات، عوام کی تکالیف اور سلطانوں کے آپس کے تعلقات اور جھگڑوں پر روشنی ڈالتے ہیں۔ خواجہ کی مصالحتی کو ششوں پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ ایک رقعہ میں سلطان حسین مرزا کو لکھتے ہیں‘ آپ سے درخواست ہے کہ آپ کی کوششیں اقربا میں امن اور دوستی قائم کرنے کی طرف ہو نی چاہیں، ولایتوں کاچھوٹا یا بڑا ہو نے کی طرف خیال نہ کریں، مسلمانوں کے افکار اور مسلمانوں کی بہتری اصل مقصد ہونا چاہیے’(۲۰)۔
خواجہ کے کئی خطوط میں اس بات پر زور ہے کہ شرعیت اپنائی جائے۔ سنت و الجماعت کے اصولوں کی پابندی کی جائے، ‘جماعت بیگان اور غیروں’ کے اطوار سے پرہیز کیا جائے۔ پندھرویں صدی کے آواخر میں دو طا قتیں مسلمانوں کو بہ بہرہ کرنے پر تلی ہو ئی تھیں، ایک طرف ایران میں صفوی عروج اور دوسری طرف باقیات تورہ چنگیزی، اندازہ ہے کہ خواجہ نے اِن ہی کو بیگانگان اور غیر یا کفار شرقیہ سے تعبیر کیا ہے۔
ان خطوط میں اکثر ظلم سے نجات، نا انصافیوں سے تلافی، نوکریوں کے لیے سفارش، مسافروں کی امداد، بیماریوں سے علاج میں مدد، تجارت اور غیر شرعی ٹیکسوں سے چھوٹ سے متعلق درخواستیں ہیں۔
خواجہ کا مزار سمرقند کے جنوبی علاقے میں عثمان یو سو پو روڈ پر واقع ہے۔ مزار ایک چبوترے پر ہے۔ اوپر کوئی سایہ سوائے درختوں کے نہیں ہے، مزار کے ایک طرف مختلف اوقات میں تعمیر کی ہو ئی تین مساجد ہیں۔ بیچ میں ایک ہشت پہلو حوض ہے اور سامنے نادر دیوان بیگی مدرسہ ہے۔ جس میں آج کل کسی تعلیم کا انتظام نہیں۔ مجھے تین مختلف اوقات میں حاضری اور فاتحہ کا موقعہ ملا، میں نے جگہ کو پرسکون پایا، کسی قسم کا ہنگامہ، مجاوروں کی پریشانی یا چادروں کی ریل پیل نہ پا ئی۔ ہند و پاکستان میں جو خرافات مزاروں پر دیکھنے میں آتی ہیں نقشبندی طریقہ کے خواجہ احرار،سمر قند میں، بہا الدین نقشبند بخارا میں اور خواجہ یوسف ہمدانی مرو میں ، ان تینوں کے مزارات میں دیکھنے میں نہیں آتیں۔
ماخذ
دارا شکوہ، سفینتہ الاو لیا، نفیس اکیڈمی، کراچی، ۱۹۷۵،ص ۱۵۷۔
ہنری بیورج، جنرل اوف رائل ایشیاٹک سوسائٹی، ۱۹۱۶، ص ۵۹۔۷۵۔
ریاض الاسلام، صوفی ازم اِن ساؤتھ ایشیا، اوکسفورڈ، کراچی، ۲۰۰۲، ص ۱۲۴
کرسچین ٹرول، مسلم شرائنز ان انڈیا، اوکسفورڈ، دہلی، ۱۹۸۹، ص ۲۱۷۔
سید احمد دہلوی، فرہنگ آصفیہ۔ مرکزی اردو بورڈ، لاہور، ۱۹۷۷،ص ۵۸۵۔
ایضاً ماخذ۳، ص ۱۹۱۔
ادریس شاہ، دی وے اوف صوفی، پینگوئن، لندن، ۱۹۶۸،ص۱۵۵۔
جون براؤن، دی درویشِیز، ان ڈی گو بکس، دہلی، ۲۰۰۳، ص۱۳۹۔
عارف نوشاہی، خواجہ احرار، پورب اکادمی، اسلام آباد، ۲۰۱۰، ص۸۵۔
یونس جعفری،حسن بیگ، وقائع بابر، شہر بانو پبلشرز، کریکاڈی، ۲۰۰۷، ص ۳۵۳۔
مرزا حیدر دوغلت، تاریخ رشیدی (ترجمہ تھیکسٹن)، ہارورڈ، ۱۹۹۶،ص۹۲۔
ایضاً ماخذ۱۰، ص ۳۵۳۔
جو این گراس، عاصم ارون بائیو، خواجہ احرار کے خطوط، برل، لائیڈن،۲۰۰۲،ص۲۱۔
خواند امیر، حبیب السیر، (ترجمہ تھیکسٹن)، ہارورڈ، ۱۹۹۴،ص۳۷۹۔
ایضاً ماخذ ۱۴، ص ۳۹۶۔
ایضاً ماخذ۱۱، ص۵۲۔
ایضاً ماخذ ۱۴، ص ۴۱۰۔
ایضاً ماخذ۱۱، ص۶۳۔
ایضاًماخذ ۱۳، ص ۲۳۔
ایضاً ماخذ۱۳، ص ۱۵۵
Dr. Mirza Hasan Beg is Scotland based Otorhinolaryngologist who is always passionate to contribute in literary sphere of History & Culture. He had edited & compiled five accounts of Mughal history. He published innumerable number of articles in filed of history, culture & Urdu poetry. From Central Asia to India, he traveled & traced the footsteps of Babar, the first Mughal ruler of India.