ہماری تاریخ ایسی نابغہ روزگار شخصیات سے بھری ہے جن کے متعلق شدت سے احساس ہوتا ہے کہ کاش ان کے متعلق مزید معلومات مل جاتیں ، کاش کسی نے ان پر پہلے کوئی کتاب لکھ رکھی ہو ، اس فہرست میں ہماری تاریخ کی بعض قابلِ ذکر ہستیاں ہیں جن کے متعلق مستند معلومات کا اب کوئی ذریعہ نہیں بچا – مزید برآں ہمارا رویہ بہ حیثیت ایک جزباتی قوم کے کچھ ایسا ہے کہ بعض شخصیات کو اپنے سروں بلکہ آسمانوں پر بٹھا دیتے ہیں اور ان کے متعلق ہر طرح کی رطب و یابس جمع کر دیتے ہیں اور کچھ شخصیات کو اس طرح طاق نسیان پر رکھ دیتے ہیں کہ ایک طالب علم کو کام کی چند سطور سے علاوہ کچھ بھی نہیں ملتا، ہماری اس روش کا ایک جیتا جاگتا نمونہ میر سید رفیع الدین صفوی شیرازی کی ذات ہے ،جن سے ہم لوگوں کی عمومی ناواقفیت اور ان کے کام سے خصوصی لاعلمی کی یہ حالت کے کہ اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ حضرت کے نام سے بھی واقف نہیں ہے-
علامہ سخاوی کے اولین شاگردوں میں سے وہ بزرگ جنہوں نے ہندوستان میں پہلی مرتبہ مسند درس حدیت بچھائی اور پہلی مرتبہ محدت کے لقب سے جانے گئے ، ہمارے تزکرے اور ہمارے اہل علم حضرات ان کے حالات و کمالات سے کما حقہ واقف نہیں ہیں
شہر اکبرآباد (آگرہ) کے علماء و صلحاء کی فہرست میں جن حضرات کو اولیت اور انفرادیت دونوں شرف حاصل ہیں ان میں سر فہرست میر سید رفیع الدین محدث ؒ صفوی شیرازی ثم اکبرآبادی کا نام ہے-علم حدیث کا ہندوستان میں فروغ کا آغاز نویں صدی ہجری کے خاتمہ اور دسویں صدی ہجری کے اوائل سے ہوا ، اس زمانہ میں علامہ سخاوی کے فضل و کمال کا آفتاب نصف النہار پر تھا اور جب انہوں نے مدینہ شریف میں اقامت اختیار کی تو تمام عالم اسلام میں آپ سے افادہ کے راہیں آسان ہو گئیں، ہندوستان میں علم حدیث اول اول بحر عرب کے ذریعے گجرات کے ساحلی علاقوں میں داخل ہوا اور پھر رفتہ رفتہ اندرون ہند بڑھتا گیا ۔
اولین بزرگوں میں مولانا راجح بن داؤد گجراتی جا نام آتا ہے جو اسے علامہ سخاوی سے لے کر گجرات آئے اور ایک زمانے کو مستفید فرما کر 904 ھ میں أحمد آباد میں آسودہ خاک ہوئے، ان کے علاوہ بھی چند علماء کے نام ہیں جنہوں نے گجرات کی سرزمین پر علوم الحدیث کی اشاعت کی لیکن شمالی ہند میں جس شخصیت کے نصیب میں علم الحدیث کی اشاعت مقدر تھی اور جو علامہ سخاوی کا ہی شگرد تھا وہ سید رفیع الدین صفوی شیرازی کی ذات والا صفات تھی ! آپ کی آمد اے قبل فقہ کج تعلیم و تدریس کا سلسلہ تو موجود تھا تاہم احادیث کی باضابطہ تعلیم کا سلسلہ قائم نہیں تھا۔
میر سید رفیع الدین صفوی حسینی شیرازی کا تعلق شیراز سے تھا شیراز کا ایک قصبہ انجو آپ کا مولد و مسکن تھا ، اپ کی پیدائش اور نشونما شیراز میں ہوئی ، نسباً آپ کا تعلق سادات صفویہ سے تھا ، تمام خاندان علماء اور صلحاء سے مزین تھا ، اخبار الاخبار میں شیخ عبد الحق محدث لکھتے ہیں کہ تفسیر معینی کے مصنف میر معین الدین بھی آپ کے اجداد میں سے تھے جو برسوں مدینہ منورہ میں مقیم رہے
معقولات آپ نے اپنے گھر پر مشہور زمانہ عالم و متکلم مولانا جلال الدین دوانی[ (م 908ھ)، صاحبِ اللوامع الاشراق فی مکارم اللاخلاق الموسموم بہ اخلاق جلالی] سے حاصل کئے جو آپ کے آباؤ اجداد کی بزرگی کے پیش نظر شیراز میں آپ کے گھر آکر آپ کو پڑھایا کرتے تھے ، اس کے بعد آپ نے بمع اپنے والدین کے حرمین شریفین کا سفر کیا اور یہ وہ زمانہ تھا جب علامہ سخاوی مدینہ منورہ میں سکونت اختیار کر چکے تھے اور سید رفیع الدین نے علم حدیث کے لئے علامہ سخاوی (م 902ھ) کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا ۔علامہ سخاوی جن کا پورا نام شیخ شمس الدین محمد ابن عبد الرحمن السخاوی تھا علامہ ابن حجر عسقلانی کے مایہ ناز شاگردوں میں سے تھے۔ علم حدیث کے استاذ العلماء اور شیخ الشیوخ ہیں ، ۔میر سید رفیع الدین نے علامہ سخاوی سے باالمشافہہ حدیث پڑھی اور ایک عرصہ تک آپ کی خدمت میں حاضر رہے ،کہا جاتا ہے کہ شیخ سخاوی نے میر سید رفیع الدین ؒ کو ان کی آمد سے قبل ہی ان کے علم و فضل کی شہرت کی بنا پر تقریبا پچاس کتابوں سے روایت کرنے کی اجازت دی تھی
معلوم ہوتا ہے کہ آپ بمع اپنے والدین کے حرمین شریفین میں ہی سکونت پذیر ہوگئے تھے اور جب سلطان سکندر لودھی کا زمانہ آیا اور ہندوستان میں علماء و فضلاء کی قدر و منزلت کی خبریں بیرون ہند پہنچیں تو پھر آپ نے بھی ہجرت کی اور اول اول گجرات میں وارد ہوئے ، سلطان سکندر علماء و مشائخ کا قدردان تھا ، اس کی قدردانی کی خبروں نے آپ کو دہلی پہنچایا ۔
یہ وہ زمانہ تھا کہ جب سلطان سکندر اگرہ کو بسانے اور دارالحکومت کی شکل دینے کے لئے کوشاں تھا ،، سلطان سکندر میر رفیع الدین کی شخصیت اور علم وفضل سے بے حد متاثر ہوا اور اس نے اصرار کیا کہ آپ آگرہ میں قیام پذیر ہو جائیں خنانچہ اپ آگرہ تشریف لائے اور جمنا کے کنارے ایک مقام کو اپنی قیام گاہ کے لئے پسند فرمایا اور درس وتدریس کا میں مشغول ہوگئے۔ اپ ہی کے ہم قدم مولانا شیخ حسن شیرازی انصاری (م956ھ) بھی تھے اور اپ بھی میر رفیع الدین صفوی کے پڑوس میں فروکش تھے-
آگرہ اس وقت بحیثیت ایک شہر کے تشکیل کے مراحل سے گزر رہا تھا اور سلطان کی ایماء پر علماء و صلحاء جوق در جوق تشریف لا رہے تھے لہٰذا آپ کی آمد سے نہ صرف اگرہ بلکہ شمالی ہند میں ایک مستند استاذ حدیث کی پہلی درس گاہ بھی قائم ہوئی اور پہلی مرتبہ اس خطہ میں قال اللہ و قال الرسول کی وہ صدا سنائی دی جس سے اج بھی ہندوپاک کے مدارس گونج رہے ہیں، دور دور سے مشتاقان علم حدیث آتے اور اپنی اپنی استعداد کے مطابق دامن بھر کر کے جاتے ، ایک زمانے نے آپ سے فیض پایا ، اطراف و اکناف میں اپ کے علم و عمل کا شہرہ ہوا ، جس مقام پر آپ کا قیام تھا وہ وہ پورا محلہ ، رفیع الدین چوک کے نام سے مشہور ہوا اور صدیوں اسی نام سے جانا گیا
بادشاہ سکندر لودھی آپ کی بے حد تعظیم و تکریم کرتا تھا اور ہمیشہ حضرت مقدس کہ کر آپ کو مخاطب کیا کرتا ، اخبار الاصفیاء کے مطابق آپ کی آمد کے وقت ہی اس نے خواب میں آنحضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں آپ کی ہیئت میں دیکھا اور آپ کی قدر ومنزلت کی طرف متوجہ ہوا-آپ نے اپنے آگرہ کے قیام کے دوران چھے سلاطین کا زمانہ دیکھا اور مدت تک زمانے کو فیضیاب کیا
سعید احمد مارہروی بوستان اخیار میں لکھتے ہیں-
“سکندر لودھی ابراہیم لودھی ،بابر ،ہمایوں ، شیر شاہ ، سلیم شاہ کل ملا کر چھ بادشاہ آپ کے کے زمانے میں گزرے طرح طرح کے فتنہ و فساد اور ملکی انقلاب اس عرصہ میں ظہور میں آئے بعض علماء مشائخین ایک عہد میں مقبول اور دوسرے زمانے میں غیر مقبول ہوکر حکومت کے دشمن سمجھے گئے مگر آپ کا طرز عمل ایسا مقبول اور پسندیدہ تھا کہ جملہ سلاطین آپ کے مطیع و فرمانبردار رہے بلکہ تمام سلاطین امور سلطنت میں آپ کے نیک مشوروں پر کاربند ہوتے رہے ، اس کی وجہ اپ کا اخلاق و اخلاص تھا
آگرہ کے تمام علماء و مشائخ کے آپ استاد الاساتذہ سمجھے جاتے تھے ، ہندو مسلمان سب کے دلوں پر آپ کی نیکی اور اخلاص کا اثر تھا-چنانچہ بابر نے جب ہندوستان فتح کیا اور آگرہ میں قیام کیا ، اس دور میں بھی آپ معزز و محترم رہے یہاں تک کہ تو بہت سے علماء و فضلاء آپ کی وساطت سے بابر کے پاس باریاب ہوئے ، ہمایوں بادشاہ جب شیر شاہ سے دوبارہ شکست کھا کر آگرہ آیا تو ازحد مایوسی و شرم کے مارے اپنے اہل خاندان سے نہیں ملا بلکہ شیخ رفیع الدین محدث کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنے اہل خانہ میں سے چند لوگوں کو وہیں بلا بھیجا۔ سید رفیع الدین نے ہی ہمایوں کو یہ مشورہ دیا کہ جب حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں تو بہتر ہے کہ اس جگہ کا موہ چھوڑیے اور قدرت الٰہی کے فیصلے کے منتظر رہیے ، چنانچہ اپ کے مشورے پر وہ لاہور کے لئے روانہ ہوا اور بالآخر ہند سے باہر نکل گیا
جب شیر شاہ کا دور آیا تو وہ بھی آپ کی جلالت علمی اور اخلاص کا بے حد قدردان اور معترف رہا , جب آپ نے وطن جانے کا ارادہ کیا تو اس نے بہ اصرار آپ کو اس قصد سے روکا۔ تاریخ میں شیخ رفیع الدین کا ذکر پورن مل راجپوت کے فتویٰ قتل کے سلسلے میں بھی آتا ہے اور یہ واقعہ شیر شاہ کے عہد کا ہی ہے ! سلیم شاہ سوری کے زمانے میں بھی آپ کا وقار و اکرام ویسے ہی قائم رہا۔
آپ کی قیام گاہ نہ صرف ایک درس گاہ تھی بلکہ سیکڑوں تشنگان علم و ادب کی پناہ گاہ بھی تھی ، اور آپ کا دسترخوان نہایت وسیع ، طلباء علم اور مسافروں سے ہمیشہ بھری رہتی اور آپ کے محلہ میں آباد ہونا بھی باعث شرف سمجھا جاتا۔ کتنے ہی لوگ آپ کی خاقاہ میں مسافرانہ ائے اور آپ کی سخاوت اور نیکی سے متاثر ہو کر اسی محلہ میں آباد ہو جاتے تھے
ابو الفضل کے والد شیخ مبارک ناگوری بھی آپ کا شاگرد اور احسان مند تھا ۔ اپ کق ذکر شیخ مبارک کے استاذ اور محسن کےبطور پر بھی آپ کا ذکر تمام تاریخوں میں ملتا ہے- جب شیخ مبارک اگرہ آئے تو آپ ہی کے محلہ میں فروکش ہوئے اور وہیں آپ ہی کے ایک قرابت دار کے یہاں ان کی شادی بھی ہو گئی تھی ، یہ محلہ عربی النسل قریشی حضرات کا مسکن تھا جہاں بابر نے جمنا کے بائیں کنارے پر ایک چہار باغ اور مکان تعمیر کیا تھا جس اس زمانہ میں گل افشاں اور اب رام باغ کہا جاتا ہے ، شیخ مبارک وہیں آباد ہوئے اور وہیں اس کے دونوں بیٹے ابو الفضل اور فیضی بھی پیدا ہوئے اور وہیں ان کی شادی بھی ہوئی۔ تاریخ سے معلوم ہورا ہے کہ آپ نازک اوقات میں شیخ مبارک کی مالی امداد بھی فرماتے تھے-
ابو الفضل آئین اکبری میں لکھتے ہیں کہ جمنا کے اس پار چہار باغ ہے جسے فردوس مکانی نے تعمیر کیا تھا وہیں یہ خاکسار پیدا ہوا۔ شیخ رفیع الدین نہایت خلیق و خوش مزاج بزرگ تھے اگرچہ آپ دنیاوی کاروبار نہیں رکھتے تھے مگر جو کچھ حاصل ہوتا تھا سب مصارف خیر خصوصا مسافروں غریبوں اور طالب علموں کی پرورش میں صرف کردیتے تھے تمام عمر مدرسہ میں درس و تدریس خصوصا علم حدیث کا سلسلہ جاری رہا آپ کے ہزاروں شاگرد درجہ کمال کو پہنچے ۔
آپ غالباً پہلے عالم دین تھے جن کو تزکرہ نگاروں نے سب سے پہلے محدث کے لقب سے یاد کیا چنانچہ بدایونی لکھتا ہے
” علمِ حدیث در ملازمت سید رفیع الدین محدث درست گردانیدہ “
مولانا محمد حسین آزاد اپنی تصنیف درباراکبری میں لکھتے ہیں کہ ’’میر موصوف (ابوالفضل) حسنی حسینی سید ہیں، قریہ ان کا متعلق شیراز تھا مگر مدت تک عرب میں سیاحی کرتے رہے، ہند میں آتے تھے تو آگرہ میں رہتے تھے، عرب میں جاتے تھے تو مکہ اور مدینہ منورہ میں سفر کرتے رہتے تھے اور درس و تدریس سے لوگوں کو فیض پہنچاتے تھے، معقول و منقول اپنے بزرگوں سے حاصل کئے تھے، مولانا جلال الدین دوانی کی شاگردی سے نئی روشنی پائی تھی، شیخ سخاوی کہ (جو) شیخ ابن حجر عسقلانی کے شاگرد تھے، سید موصوف نے علوم نقلی ان سے حاصل کئے تھے‘‘
آپ کی اولاد
میر رفیع الدین کے ایک فرزند میر مرشد الدین کا ذکر بوستان اخیار میں ہے کہ وہ بھی صلقح و تقویٰ سے اراستہ تھے اور اپنے والد کے پہلو میں آرام فرما ہیں ۔اخبار الاخیار میں شیخ عبد الحق نے تصریح کی ہے کہ آپ کی اولاد میں سے کوئی باقی نہیں رہا اور غالبا آپ کے فرزند کے اگے سلسلہ اولاد نہیں چلا ، گو کہ آگرے کے کچھ حضرات کے متعلق یہ کہا جاتا تھا کہ یہ میر رفیع الدین محدث کی اولاد سے تھے لیکن یہ دعویٰ پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتا اور غالبا میر صاحب سے کسی رشتہ یا تعلق کی بنیاد پر ایک خاندان کو ایسا کہا گیا ہو ، اس کے علاؤہ ایک میر رفیع الدین عہد عالمگیری کے بزرگ بھی آگرہ میں گزرے ہیں
میر رفیع الدین کے بھتیجے میر سید محمد جو میر معین الدین شیرازی کے بیٹے تھے وہ بھی آپ کے ساتھ اسی محلہ میں آباد تھے ، طریقت میں شہخ امان پانی پتی کے مرید تھے۔گو کہ اپ کی صلبی اولاد کا سلسلہ اور ذکر نہیں ملتا تاہم خدا کی شان ہے کہ اپ کی روحانی اولاد نے آپ کے نام کو زندہ اور تابندہ رکھا۔
یوں تو سیکڑوں طلباء علم آپ سے فیضیاب ہوئے تاہم آپ کے سب سے زیادہ مشہور تلامذہ میں سے شیخ ابو الفتح تھانیسری کو ایک خاص امتیاز حاصل ہے شیخ ابو الفتح تھانیسری نے پچاس برس اپنے استاد کے محلہ میں ہی علوم حدیث کا درس دیا ، آپ سے فیضیاب ہونے والوں میں میں کمال الدین شیرازی ، شیخ افضل انصاری، قاضی ناصر اکبرابادی، حاجی ابراہیم سرہندی، ملا عبد القادر بدایونی وغیرہ مشہور ہی۔
شیخ تھانیسری کے علاؤہ سید جلال الدین حسینی بدایونی وغیرہ آپ کے جلیل القدر شاگردوں میں شمار ہوتے ہیں ،، آپ کے صحبت یافتگان میں شیخ جمال الدین شیرازی اکبرآبادی کا بھی نام آتا ہے جن کا حاشیہ شیخ دوانی کے حاشیہ قدیمیہ پر مشہور تھا !
میر رفیع الدین محدث کی وفات ۹۵۴ ھ میں اگرہ میں ہوئی اور اپنے مکان میں ہی آسودہ ہوئے ،”مالک خزانہ” تاریخ وفات ہے -مخبر الواصلین میں تاریخ وفات یوں نقل ہے-
مخبر الواصلین میں تاریخ وفات یوں نقل ہے
مظہر خالق زماں و زمیں
شاہ دنیا و دیں رفیع الدین
صفوی بود آں خدا آگاہ
طیب اللہ روحہ و ثراہ
سال نقلش چو در شمار آمد
نہصد و پنجاہ وچہار آمد
954ھ
آپ اپنی خانقاہ میں ہی آسودہ خاک ہوئے-شاہجہان کے وقت میں خانقاہ کے جوار میں آصف خان کی عالیشان حویلی تعمیر ہوئی تھی ، جس میں 56 پھاٹک اور 52 چوک تھے ، اب نہ حویلی رہی ، نہ پھاٹک بچے ، جو مقام علماء کا مسکن تھا، ہزاروں مسلمانوں کی آبادی تھی وہاں اب شاید ہی کسی مسلمان کا گھر ہو، درمیان میں ایک قبرستان بھی تھا جس میں نہ جانے کتنے مردان خدا کی قبور تھیں سب انقلاب زمانہ سے ناپید ہو گئیں، آپ کے مقبرہ پر ایک شاندار گنبد تھا وہ بھی امتداد زمانہ سے کب کا زمین دوز ہو چکا ،غرض کہ ایک پوری دنیا بدل گئی، زمین و آسمان بدل گئے !
آپ کی قبر آگرہ کے محلہ بیلن گنج میں لکشمی مارکیٹ کے سامنے موجود ہے جو ہمیں اب بھی گزشتہ دور کے ان سنہرے ایام کی یاد دلاتی ہے جب یہاں کے بام و در قرآن و حدیث کے ذکر سے مامور تھے اور طلباء کا ہجوم اس نورانی و روحانی ماحول کا ایک حصہ تھے
Khalid Bin Umar is a history buff who writes on Micro-history, Heritage, Sufism & Biographical accounts. His stories and articles has been published in many leading magazines. Well versed in English, Hindi, Urdu & Persian, his reading list covers a vast arrays of titles in Tasawwuf & Oriental history. He is also documenting lesser known Sufi saints of India