الوداع شمس الرحمٰن فاروقی

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

کسی نامور بڑی شخصیت کے انتقال پر اکثر ایک جملہ دہرایا جاتا ہے کہ ، مرحوم اپنی ذات میں ایک انجمن تھے جو اکثر اوقات مبالغہ ہوتا ہے مگر یقین سے کہا جا سکتا یے کہ شمس الرحمٰن فاروقی کی رحلت ، ایک انجمن ، ایک ادارہ ،ایک اکیڈمی کا خاتمہ ہے اور میرے نزدیک ایک بڑے سائبان کا اڑ جانا ہے ۔

جن لوگوں کو واقعتاً علم و ادب سے کچھ لگاؤ ہے، اردو زبان و ادب کے مسائل سے شناسائی ہے ان کو اندازہ ہوگا کہ کل ایک شخص کی رحلت سے ہندوستانی ادبیات کا کتنا بڑا نقصان ہوا اور ایسا نقصان جس کی تلافی کا کوئی امکان مستقبل قریب میں نظر نہیں آتا۔ شمس الرحمٰن فاروقی کے علمی ادبی ورثہ پر تو خیر قیامت تک کچھ نہ کچھ لکھا جاتا رہے گا مگر ہم فاروقی صاحب کو ایک دوسری جہت سے دیکھتے ہیں ، میں ہمیشہ یہ دیکھتا یوں کہ اس شخص کے افکار و کردار سے ہمارے سیکھنے کے لئے کیا کیا چیزیں ہیں ؟ اور دوسرے یہ کہ اس شخص کے کردار کی تعمیر و تشکیل میں اس کے خاندانی اثرات کا کیا رول رہا ہے ؟

شمس الرحمٰن فاروقی صاحب کے بزرگوں کا تعلق موضع  کوریا پار سے تھا جو قدیم جون پور ، پھر اعظم گڑھ اور اب ضلع مئو کا حصہ ہے جہاں اپ کے بزرگ جو نسباً شیوخ فاروقی تھے ، عہد شرقی میں دہلی سے آکر آباد ہوئے اور اولین بزرگ جو یہاں آئے وہ کوڑیا پیر کہلاتے تھے لہذا اس موضع کا نام انھیں کی وجہ سے کوریا پار آج تک معروف ہے –

فاروقی صاحب کے دادا اور انکے برادران بلکہ پورا دادھیالی خاندان مولانا اشرف علی تھانوی کا حلقہ بگوش تھا اور جسیا کہ اس سلسلے کی خصوصیات میں سے یے ، یہ سب لوگ نہایت متشرع، اصول پسند، وضع دار ، سنت و شریعت کے پابند اور حد درجہ محتاط لوگ تھے ! یہ خاندان حسن صورت کے علاؤہ حسن سیرت ، نازک مزاجی اور مولویانہ مزاج کے لئے مشہور تھا۔ ان کے دادا مولوی محمد اصغر فاروقی کا شمار ضلع کے بڑے علماء میں کیا جاتا تھا ، مولوی اصغر صاحب پہلے مولانا شاہ فضلِ رحمان گنج مرادآبادی سے بیعت ہوئے اور ان کی وفات کے بعد مولانا اشرف علی تھانوی سے اصلاحی تعلق قائم کیا اور ان کے زیر اثر پورا گھرا مولانا تھانوی کا عقیدت مند اور مرید ہوگیا !

 فاروقی صاحب کے والد مولوی خلیل الرحمٰن (1910-1972) اپنے والد کی سب سے چھوٹی اولاد تھے ، الہ اباد یونیورسٹی کے گریجویٹ تھے اور محکمہ تعلیمات میں ڈپٹی انسپکٹر مدارس تک ترقی کر سکے ، علم و تقویٰ کی تجسیم ، حد درجہ محتاط بزرگ تھے ، ان کی احتیاط کا یہ عالم تھا کہ جب بھی دورے پر جاتے ، اپنا کھانا بنوا کر ساتھ لے کر جاتے،   مولوی صاحب ایک حد تک سخت گیر بھی تھے ، ایک مرتبہ ناشتہ کے وقت جو چائے ائی تو فاروقی صاحب نے ایک گھونٹ لیتے ہی منہ بسورا ، یعنی ان کو چائے پسند نہیں آئی تھی ، ان کے والد صاحب نے صرف اتنا کہا۔ ” بَچٌے میاں ؟ ( یہ  فاروقی صاحب کے گھر کی عرفیت تھی ) بس فاروقی صاحب کو وہاں سے زندگی بھر کے لئے ایک سبق لے کر اٹھنا پڑا !  ان کے والد کا ڈسپلن اور سختی کی وجہ سے فاروقی صاحب ایک زمانے میں ہکلانے بھی لگے تھے گو کہ رفتہ رفتہ اس کا اثر کم ہو گیا مگر کبھی کبھی یہ کمزوری عود کر آتی تھی!

مولوی خلیل الرحمٰن عربی، فارسی کے علاوہ انگریزی سے بھی کما حقہ واقف تھے مگر کبھی بولتے نہیں تھے ، انہوں نے ۔اپنی سوانح عمری  ’’ قصص الجمیل فی سوانح الخلیل میں اپنے خاندانی حالات اور اپنی زندگی کے مختلف گوشوں پر خوب لکھا ہے بلکہ اس مین اپنے بیٹے فاروقی صاحب کے متعلق بھی ایک نوٹ یے کہ شمس الرحمٰن کو پڑھنے لکھنے سے بہت دلچسپی ہے اور اور کھیل کود کے بجائے ایک جلد ساز کی دوکان پر بیٹھ کر اندھیرا ہونے تک کچھ نہ کچھ پڑھا کرتے ہیں ! مولوی صاحب کی پوری زندگی ایک نظام الاوقات کی پابند تھی ! یہ ڈسپلن فاروقی صاحب کو ورثہ میں ملا ، ان کی زندگی بھی پابندی وقت اور ایک خاص ڈسپلن سے عبارت تھی  ، اس کا ںتیجہ یہ ہے کہ جس قدر کام آپ نے اپنی عمر میں کر لیا اور جس معیار کا کام آپ سے صادر ہوا ، آپ کے ہم عصروں سے اس کا چوتھائی بھی نہ ہو سکا-

Sher-e-Shor Angez Volume-001 by Shamsur Rahman Faruqi | Rekhta

فاروقی صاحب کا نانہال (قاضی پور ) ، دنیاوی وجاہت اور علمی روایت  دونوں سے مزین تھا ، پرنانا مولوی عبد القادر قادر بنارسی صاحب تصنیف بزرگ تھے جو مدتوں بنارس میونسپل بورڈ کے چیئرمین بھی رہے،  ان کے جد امجد مشہور فارسی شاعر ، عالم ، سابق بنارسی (م 1810) مشاہیر بنارس میں سے تھے- فاروقی صاحب کی نانی حضرت چراغ دہلی کے خاندان سے نسبت نسبی رکھتی تھیں اور پورا نانہال مولانا احمد رضا خان صاحب کا عقیدت مند اور ان کی فکر کا ہم خیال تھا ، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بزرگانِ دین سے  لگاؤ اور اہل اللہ سے ایک گونہ شیفتگی اور محبت جیسی خوبیاں فاروقی صاحب نے اس طرف سے حاصل کیں ! 

اس مولویت اور دینداری کے باوصف ان دونوں گھرانوں شعر و ادب کا چرچا خوب تھا اور اسی ماحول کا اثر تھا کہ سات برس کی عمر میں فاروقی صاحب نے حسب ذیل مصرع کہا : معلوم کیا کسی کو مرا حالِ زار ہے


جناب شمس الرحمٰن فاروقی صاحب کی زوجة محترمة کے ساتھ اک یادگار تصویر، ماخز، ٹویٹ مہر فاروقی, مرحوم دختر شمس الرحمٰن فاروقی صاحب

ان کی علمی اور ادبی قد کاٹھ کا اندازہ تو اہل علم کرتے رہیں گے لیکن مجھ جیسے طالب علم کے لئے ان کی درویشانہ اور مجاہدانہ حیات میں بہت سی کام کے پہلو ملتے ہیں جو اس لائق ہیں کہ حرز جاں بنائے جائیں- فاروقی صاحب کہ زندگی سے سیکھنے کے لئے سب سے روشن اور جلی عبارت ان کی محنت کی عادت ہے،  بے لوثی ہے ، دیانت داری ہے ، وقت کی پابندی یے ، فضول مشغلوں سے اجتناب ہے ، درویشانہ بے پروائی ہے ، ہر کہ و مہ کی رہ نمائی ہے اور آخر الامر کثرت مطالعہ ہے ! ہم نے سیکھا کہ دیانت داری کے ساتھ کی گئی محنت کبھی ضائع نہیں ہوتی اور رنگ و روغن پیدا کر کے رہتی ہے ! فاروقی صاحب کی زندگی کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اپ کو بچپن سے جو کتابوں سے لگاؤ ہوا ہے تو آخر تک اس میں کمی نہیں آئی ، کم لوگوں کے علم میں ہے کہ اوائل عمری میں فاروقی صاحب ادارہ ادب اسلامی سے بھی وابستہ رہے اور کئی برس اس کے لیے کام کرتے رہے !

 فاروقی صاحب بے حد محنتی شخص تھے ، آپ نے ام اے انگریزی میں ٹاپ کرنے کے بعد ، لیکچرار شپ سے تعصب کی بنا پر محروم کر دئے جانے کے باوجود ہمت نہیں ہارے اور ہندوستان کا مشکل ترین مقابلہ جاتی امتحان برائے اعلیٰ سروسز کے لئے بیٹھے اور پہلی کوشش میں سرفراز ہوئے ، باوجود یہ کہ اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے ، کتابوں کی تلاش اور انکے مطالعہ سے کبھی خالی نہ رہے ، پوری زندگی ، علم و تحصیل علم آپ کا اوڑھنا بچھونا بنی رہی- لوگ ان کو جدیدیت کا امام سمجھتے تھے اور ان کو مغربی ادبیات و تنقید کا پیرو سمجھتے تھے مگر انہوں ہمارے کلاسیکی ادب کو اس طرح گھول کر پی لیا تھا کہ فی الحال اس میدان میں ان کے مقابل کوئی نہیں تھا ، انہوں نے مشرقی شعریات اور لفظی صنائع (بالخصوص ایہام ) کا ایسا منظم مطالعہ کیا تھا کہ اب اس وقت ان سے اس موضوع پہ بات کرنا اپنی جہالت کے عرفان کا مستقل ذریعہ تھا۔

فاروقی صاحب کی ایک اور خصوصیت جو مجھے بہت متاثر کرتی ہے وہ ان کا درویشانہ ٹھاٹ تھا ،  اپنے نام کو مختلف ہتھ کنڈوں کے ذریعے آگے بڑھانے،  تصاویر کھنچوانے اور اگے بڑھ بڑھ کر اپنے نام کو اونچا کرنے کی مذموم عادت سے ہمیشہ مبرا رہے اور ایک درویش خدا مست کی طرح علم و ادب کی بے لوث خدمت میں مشغول رہے گو کہ ایک قلندرانہ شان اور ایک بے ںیازی ضرور تھی مگر اس کی تہ میں خود پسندی یا خود نمائی کبھی نہیں رہی چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اپنے ہم عصروں کے مقابلے میں ان کی تصاویر بہت کم ملتی ہین مگر ان کا کام اس قدر وقیع اور وسیع ہے کہ صدیاں ان کی محنت کے اعتراف اور استعجاب میں گزر جائیں گی –

ان کا سب سے رخشندہ پہلو تھا کثرت مطالعہ ! چونکہ مختلف زبانوں پر حاوی تھے لہٰذا انگریزی ، اردو ،فارسی ہندی، عربی کے قدیم و جدید تمام مصادر و مآخذ ان کے سامنے تھے اور کمال یہ کہ سب مستحضر تھے ۔ فارسی اور انگریزی ادبیات پر ایسی نظر اور ایک حاکمانہ قدرت تھی کہ اس زبان کے اساتذہ بھی پانی بھرتے نظر آتے ، گفتگو میں یہ عالم کہ آپ کسی موضوع کو لے لیجئے مثلآ مصوری ہے ، سائنس ہے ، جاگرفی ہے ، ہندوستان کلاسیکی موسیقی ہے ، ادھر آپ نے موضوع چھیڑا ادھر دلائل اور حوالہ جات کے انبار لگنا شروع ، حد تو یہ ہے کہ پتھروں کے طبی خواص پر ایک صاحب کو ایسی خوراک دی کہ اس کے بعد ان سے جلد کسی سے بات کرتے نہ بنی۔ آپ ایک مدیر ، ایک نقاد ہوتے ہوئے جس طرح ادب کے ہر شعبہ اور ہر صنف میں خلاقانہ عبور رکھتے تھے ، نہ صرف حیرت انگیز بلکہ معجزانہ تھا۔

آپ ان کی ناقدانہ صلاحیت کا جائزہ لیتے رہیے، میں تو یہی سوچتا رہ جاتا ہوں کہ انہوں نے ایک عمر گزارنے کے بعد  تقریباً ستر برس کی عمر میں جب ناول “کئی چاند تھے سرِ آسماں ” لکھا تو اس ناول میں جس ماہرانہ دسترس کا اظہار ہوتا ہے وہ حیرت انگیز ہے ، غور کیجئے کہ  انہونے ارسطو کی بوطیقا کا بھی ترجمہ کیا ہے اور جیسا ترجمہ کیا ہے ، اپنے آپ میں شاہکار ہے ، ایک جملہ ادھر سے ادھر کر کے دیکھئے ، آپ کو ان کی زبان و بیان پہ گرفت کا اندازہ ہو جائے گا-

اگر وہ صرف ایک ہی کتاب شعر “غیر شعر اور نثر” لکھ جاتے تو ان کے نام کو زندہ رکھنے کے لیے کافی تھی مگر ہم دیکھتے ہیں کہ اصنافِ سخن میں سے ہر ایک پر آپ نے کچھ نہ کچھ لکھا ہے اور کس علمیت ،تحقیق اور بصیرت کے ساتھ لکھا ہے ! اشعار میر و غالب کی تعبیر و تفہیم کے سلسلے میں جس طرح انہوں نے ایک ایک لفظ کے تاریخی پس منظر میں جا کر استعارہ اور ابہام تک کی وضاحت کی ہے اور واضح کیا کہ شعر کے ایک ہی معنی نہیں ہوتے بلکہ اس کے کئی پہلو ہو سکتے ہیں ، یہ طرزِ تفہیم و تشریح ان سے پہلے  ناپید تھا ، جب یہ غالب کے اشعار  کی تشریح کرتے ہیں تو کس قدر گہرائی ہے کہ مثلآ غالب جس شعری روایت کے پروردہ اور نمائندہ تھے اس میں شعر کی تعریف کیا تھی  ؟ غالب نے کون کون سے ایسے الفاظ استعمال کئے ہیں جو عام لغات میں نہیں ملتے ؟ اسی طرح انکے اشعار کے وہ معنیٰ کے ایسے پہلو آشکارا کرتے ہیں جو شارحین کی نظر سے اب تک پوشیدہ رہے۔

شعر شور انگیز میں ہم دیکھتے ہیں کہ میر کے اشعار میں ابہام کے تسلط کی بنا پر جو معنیٰ پوشیدہ رھے ان کو  فاروقی کس طرح سامنے لائے، بلاشبہ ان کی بازیافت ، فاروقی صاحب کا کارنامہ یے- صوف اور اہل تصوف کو وہ کس نظر سے دیکھتے تھے یہ مجھے  میر درد پر ان کے ایک مضمون کو پڑھ کر اندازہ ہوا کہ تصوٌف کی افادیت اور اس کی معنویت کے متعلق یہ مضمون ہر اہل خانقاہ کو ضرور پڑھنا چاہیے اور اس آئینہ میں کم از کم ایک مرتبہ خود کو دیکھ لینا چاہیے کہ وہ کہان کھڑے ہیں اور کدھر جا رہے ہیں-
2004 میں آپ کا افسانوی مجموعہ سوار شائع ہوا ، میں تو صرف ایک افسانہ سوار کے مطالعہ سے ہی فارغ نہ ہو سکا اور کوئی دو تین گھنٹہ صرف اس شعر کی تکرار کرتا رہ گیا-

سوار دولت جاوید در گذار آمد
عنان او نگرفتند از گذار برفت

کیا افسانہ ہے کیسی خلاقیت ہے ، کیسا پیغام ہے –

بلا مبالغہ سیکڑوں نہیں ہزاروں خطوط ان کے پاس صرف اس غرض سے آتے تھے کہ میں فلاں موضوع پہ تھیسس لکھ رہا ہوں، میں فلاں شاعر پر تحقیق کر رہی ہوں ، میری رہنمائی فرمایئے اور آپ کو حیرت ہوگی کہ حسب معمول وہ ان سب کا جواب دینا اپنا فرض سمجھتے تھے ! ہماری بے حسی، جہل اور مادیت پرستی نے ہم کو اس لائق بھی نہیں چھوڑا کہ ہمیں اس نقصان کا احساس بھی ہو سکے جو فاروقی صاحب کی رحلت کی شکل میں پیش آیا ہے ! سنتے ہیں کسی محفل میں انہون نے ایک مصرعہ پڑھا اور زور دے کر کہا کہ یہ ایہام کا معجزہ جاتی مصرع ہے-

ہم وہ ہیں کہ غم کریں گے ملک جن کے واسطے

مین بھی کہتا ہوں کہ یہ مصرعہ معجزہ جاتی ہے اور فاروقی صاحب آپ کے لئے ہی کہا گیا تھا اور آپ کے ذریعے ہی ہم نے سنا ہے ! 
خدا نے اردو دنیا کو فاروقی عطا فرمایا اور اب خدا ہی سے دعا ہے کہ ان کا نعم البدل عنایت فرمائے آمین ! 

Khalid Bin Umar is a history buff who writes on Micro-history, Heritage, Sufism & Biographical accounts. His stories and articles has been published in many leading magazines. He is alsoWell versed in English, Hindi, Urdu & Persian, his reading list covers a vast arrays of titles in Tasawwuf & Oriental history 

+ posts

Khalid Bin Umar is a history buff who writes on Micro-history, Heritage, Sufism & Biographical accounts. His stories and articles has been published in many leading magazines. Well versed in English, Hindi, Urdu & Persian, his reading list covers a vast arrays of titles in Tasawwuf & Oriental history. He is also documenting lesser known Sufi saints of India