حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی زندگی اور شہادت

یہ ماہ مبارک جہاں رحمتوں کا مہینہ ہے ، بخششوں کا مہینہ ہے، اسکو ایک فضیلت یہ اور بھی اللہ سبحانہ تعالیٰ نے عطا فر مادی کہ اپنے ایک نیک بندے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو شہادت عطا کر کے اس مہینے کو مزید سرفراز فر مایا مزیداعزازسے مزین فر مایا۔ ہم یہاں ان کی پیدا ئش سے لیکر شہادت تک کاایک مختصر سا واقعا تی خاکہ پیش کر نے کی کوشش کر رہے ہیں جوکہ تاریخ میں چاند اور ستاروں کی طرح جگمگاتے ملیں گے اور ان کا انکار یا تردید کسی بھی صاحبِ ایمان کے لیئے ناممکن ہے ۔گوکہ ہمارے ہاں ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے جو کسی کی ضد میں ،یا بہکائے میں آ کر کسی سے نفرت یا محبت کر نا شروع کر دیتے ہیں ؟ جبکہ آج کی دنیا پروپیگنڈے کی دنیا ہے اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی کرادار کشی کی تاریخ توصدیوں پر انی ہے جس میں اشرفیوں کو بھی دخل تھا ۔وجہ یہ تھی کہ وہ عظمت کا ایک ایسا مینارتھے جس کی ان کے بعد نقل ممکن نہ تھی ۔اس پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کایہ ارشادِ گرامی سند ہے کہ ” علی “ تمہارا معاملہ بھی عیسیٰ علیہ السلام جیسا ہوگا کہ کچھ تمہیں اتنا بڑھا دیں گے کہ جہنم میں جا ئیں گے ( یہاں لوگ اپنے مطلب کے معنی نکال لیتے ہیں لہذاا میں یہاں پر وضا حت ضروری سمجھتا ہوں کہ اس سے مراد غالبا“ وہ دونو ں فرقے تھاجو کہ حضرت علی کی زندگی میں ہی بن گئے تھے جن سے خود انہوں نےجنگ کی، نہ کہ ان کے ماننے والے) اور کچھ اتنا گرا ئیں گے کہ جہنم اپنا ٹھکانہ بنا ئیں گے “ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس سے بچا ئے کہ یہ بہت بڑی وعید ہے اگر لوگ سمجھیں ؟ پھر ایک شکایت کرنے والے کو حضور (ص) کایہ جوا ب کہ جو “علی” سے محبت رکھتا ہے وہ مجھ سے محبت رکھتا ہے اور جو علی سے بغض رکھتا ہے وہ مجھ سے بغض رکھتا ہے “ اور یہ کہ “ علی تم میں سب سے زیادہ خوف ِ خدا رکھنے والا ہے “ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خصو صیات یہ تھیں کہ انہوں نے ہمیشہ فقر اور فاقے کی زندگی گزاری وہ اپنے کردار میں امام السالکیں اور امام المتقین تھے ؟ ان کی ولایت کے سلسلہ میں کسی بھی فر قہ کو اختلاف نہیں ہے ۔اور یہ سلسلہ اولیا ئے کرام ان ہی کا عطا کردہ وہ فیض ہے جوآج تک جاری ہے اور انشا اللہ قیامت تک جاری رہے گا ۔اس لیئے کہ وہ اپنے پیچھے اہلِ سنت میں بھی سترہ سلسلے چھوڑ گئے ہیں جو ان کے بعد دنیا میں اسلام پھیلا نے کا با عث ہو ئے ۔ ورنہ باد شاہ تو اسلام کو پہلے ہی ٹھکا نے لگا دیتے ۔ یہ ہی ان کی وہ خوبیاں تھیں جو ہمیشہ ہر جگہ دنیا میں ان کے آڑے آتی رہی ہیں ۔ حضرت علی کی فضیلت میں اتنی احادیث ہیں ان کو بیان کرنے کے لیئے ایک ضخیم کتاب چا ہیئے۔ جبکہ حضرت علی کے بارے میں جو احادیث ملتی ہیں ان میں بعد میں آنے والوں اور بنوانے والوں کی طرح اشرفیوں کو کوئی دخل نہیں ہے ، کیونکہ ان کے پاس اشرفیاں کبھی تھیں ہی نہیں ۔وہ جو کچھ اور جیسے کچھ تاریخ میں موجود ہیں وہ اپنے ذاتی کر دار اور ان قر بانیوں کی بنا پر ہیں جو انہوں نے اور ان کے اہلِ خاندان نے نبی کریم (ص) اور اسلام کی معاونت میں دیں اور اس سلسلہ میں تمام مشکلات بھی جھیلتے رہے ۔ جبکہ شاہوں کے اشرفی والے عمل کی وجہ سے احادیث کی تعداد تو ایک وقت میں بڑھ کر سات لاکھ تک جا پہو نچی ،جو کہ محد ثین کی کوششوں سے اب گھٹ کر سات ہزار کے قریب رہ گئی ہے۔ لیکن ابھی بھی جو احادیث حضرت علی کرم اللہ کے بارے میں احادیث کی مستند کتابوں موجود ہیں وہ بھی اتنی ہیں کہ یہ مختصرصفحات ان سب کو بیان کرنے کے لیئے کافی نہیں ہیں ۔ لہذا میں یہاں صرف ایک اورمستند حدیث پیش کر کے ان کے بارے میں تاریخی فضائل بیان کرناشروع کر تا ہوں جو تاریخ کی کتابوں میں بلا تخصیص موجود ہیں۔یہ حدیث مسند احمد میں ہے اور انہوں نے اس کے حوالے بھی دیئے ہیں ۔اسی کو ابن ِ کثیر نے بھی “البدایہ والنہا یہ “ میں نقل کیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ “ کوئی مومن علی سے بغض نہیں رکھ سکتا اور کوئی منا فق علی سے خوش نہیں رہ سکتا “ اس کے بعد اب وہ چند حقائق، جن میں وہ یکتا نظر آتے ہیں؟ سب سے بڑی فضیلت تو انہیں یہ حا صل ہے کہ وہ واحد شخص تھے جو کہ اپنی پیدائش سے لیکر حضور ﷺ کے وصال تک ہمیشہ ان کے ساتھ دکھا ئی دیئے ۔ اس لیئے کہ جب وہ پیدا ہو ئے تو حضور ﷺ ان کے گھر میں قیام پذیر تھے اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے والد ِ محترم حضرت ابی طالب کے زیر کفالت تھے ۔ پھرجب حضور ﷺ کی شادی حضرت خدیجہ الکبریٰؓ سے ہو گئی تو اس وقت حضور (ص)نے اپنے چچا کا بار ہلکا کر نے کے لیئے جو کہ کثیر العیال تھے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو اپنی کفالت میں لے لیا، اس کی دوسری وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے۔ کہ وہ اس تعلیم کی عملی تفسیر پیش کر نے کے لیئے بیچین ہوں کہ “ احسان کا بدلہ احسان ہے “ گوکہ ابھی یہ آیت نازل نہیں ہو ئی تھی ۔مگر اس ہستی کے لیئے جو کہ مجسم قر آن تھی یہ قر آن کی عملی تفسیر پیش کر نے اور امت کو سبق دینے کا بہترین مو قع تھا۔ کیونکہ آئندہ چل کرانﷺ کا ہر فعل قابل ِ اتباع بننا تھا ؟ ابھی حضرت علی کرم اللہوجہہ کی عمر دس گیارہ ہی برس تھی کہ حضور ﷺکو رسالت عطا ہو ئی ۔ ایک دن حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے عجیب بات دیکھی کہ حضرت خدیجہ ؓ اور ان کے عمزادﷺ نماز پڑھ رہے ہیں ، چونکہ یہ طریقہ عبادت نیا تھا اور وہ اس سے مانوس نہ تھے ۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ پو چھتے ہیں یہ آپﷺ کیاکر رہے ہیں ؟ حضورﷺ نے فر مایا کہ ہم اللہ سبحانہ تعالیٰ کی عبادت کر رہے ہیں اور اللہ سبحانہ تعالیٰ نے مجھے اپنا رسول ﷺ مقرر فر مایا ہے ۔ یہ وہ وقت تھا کہ ابھی حضور ﷺ کو تبلیغ کی اجازت نہیں ملی تھی۔ انﷺ پر ایمان لانے والی روئے زمین پر صرف ایک ہی ہستی ان کی زوجہ محترمہ ؓ تھیں جو پہلی وحی سنتے ہی پکار اٹھی تھیں کہ بے شک آپ نبی ﷺ ہیں اور اللہ آپ کو تنہا نہیں چھوڑے گا اس لیئے کہ آپ بھوکوں کو کھانا کھلاتے ہیں مظلوموں کی مدد فر ماتے ہیں ۔ چو نکہ حضور ﷺ اپنے طور پرکچھ نہیں کرتے تھے تا وقتیکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم نہ آجا ئے ۔جس کی خود اللہ سبحا نہ تعالیٰ نے بھی تصدیق فر مائی ہے کہ “یہ نبی اپنی مر ضی سے کچھ نہیں کہتے یہ وہی کچھ کہتے ہیں جو میں حکم دیتا ہوں “ لہذا ابھی نہ حکم ملا تھا نہ تبلیغ شروع ہوئی تھی ، اس لیئے کسی اور کے ایمان لا نے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے عبادت میں شامل ہونا چا ہا ، توحضور ﷺ نے فر مایا کہ اس کے لیئے تم پہلے اپنے والد سے اجازت لے لو، مگر ساتھ میں یہ بھی تاکید فر مادی کے ان سے ابھی ذ کر نہ کر نا کیو نکہ وجہ وہی تھی کہ وہ اس سلسلہ میں حکم خداوندی کے منتظر تھے، مگر حضرت علی کرم الل وجہہ نے ضد کی اور دوسرے روز وہ بھی شاملِ جماعت ہو گئے ۔ پھر وہ وقت آیا کہ وہ آیت نازل ہو ئی کہ “ تم اپنے اہلِ خاندان کو دین کی دعوت دو اور انہیں جہنم سے بچا و “ حضرت علی کرم اللہ کو حضور (ص) نے حکم دیا کہ سب قرابتداروں کو دعوت دو اور کچھ ان کے لیئے کھانے پینے کا بھی بندو بست کرو ۔ حضرت علی کرم اللہ وجہ کہیں سے ایک چھو ٹے سے بر تن میں کھانا لے آئے اور اور ایک چھو ٹے سے ہی بر تن میں دودھ بھی، جو ایک آدمی کے لیئے بھی کا فی نہ تھا۔ جبکہ اس موقعہ پر چالیس سے زیادہ خاندان ِ نبوت کے افراد مد عو کیئے گئے تھے اور موجود بھی تھے۔ حضور (ص) نے پہلے کھانا شروع کرایا ، پھر جب سب سیر ہو گئے ، مگر کھانا اور دودھ جوں کا توں رہا تو پھر حضور ﷺ نے وہ مشہور جملے ارشاد فر مائے کہ اگر میںﷺ یہ کہوں کہ کوہ ِ صفا کی دوسرے طر ف غنیم کی فو ج آپہو نچی ہے تو تم لوگ یقین کرو گے ؟ سب نے یک زبان ہوکر کہا کہ بے شک ! اس لیئے کہ آپ صاد ق اور امین ہیں آپﷺ کی زبان سے ہم نے کبھی کو ئی غلط بات نہیں سنی ۔ تب حضور ﷺ ان سے دوبارہ مخاطب ہو ئے اور فرمایا کہ اگر میں یہ کہوں کہ خدا ایک ہے اور میں اس کا رسول ہو ں تو کیا تم مانوگے ؟ اس وقت وہی ایک اکیلابچہ تھا جو اٹھ کرکھڑا ہو تا ہے اور کہتا ہے کہ میں آپﷺ پرایمان لا تا ہوں ، حضور ﷺاسکو بٹھا دیتے ہیں، پھر حضورﷺ پنی بات دہراتے ہیں ۔ پھر بھی خاموشی رہتی ہے وہی بچہ دوبارہ کھڑا ہو تا ہے ، حضور ﷺ پھر بیٹھنے کا حکم دیتے ہیں ۔ اور تیسری مر تبہ اپنی بات دہراتے ہیں پھر بھی خاموشی ہی رہتی ہے تو پھر وہی بچہ کھڑا ہو تا ہے۔ تو حضورﷺ فر ماتے ہیں کہ علی تم آج کے بعد میرے وزیر ہو ؟ اب لوگوں کی خاموشی ٹو ٹتی ہے اور الٹا سیدھا بکنے لگتے ہیں کہ محمد ﷺ تم تو بہت بڑے جادو گر ہو ،کیا تمﷺ نے ہمیں یہ جا دو دکھانے کے لیئے بلایا تھا؟ پھر ابو لہب ، حضرت ابو طالب سے مخاطب ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ پہلے تو تمہارے بھتیجے نے ہم پر بر تری کا دعویٰ کیا تھا اور اب تمہا رے بیٹے کی بھی ہمیں تابعداری کر نا پڑے گی ؟ اور یہ کہہ کر بکتاجھکتا ہواچلا جاتا ہے اور اپنے ساتھ ، بقیہ اہل ِخاندان کو بھی لےجاتا ہے۔ اس لیئے کہیں کوئی ایمان نہ لے آئے۔ کیونکہ وہ دل میں اسے دین کی حقانیت سے واقف تھا، اس کے بعد حضرت علی کرم اللہ وجہہ گھر ہو یا سفر ہر مو قعہ پر ساتھ نظر آتے ہیں حتیٰ کہ ایک دن حضور ﷺفر ماتے ہیں کہ علی میری چادر اوڑھ کر میرے بستر پر لیٹ جا ؤ کیونکہ میںﷺ ہجرت کر رہا ہوں اور باہر کفار گھر کاگھراؤ کر چکے ہیں اور وہ میرے قتل کے درپہ ہیں۔ تم کل ان کی امانتیں واپس کر کے میرے پاس آجانا، وہ تمہارا انشا اللہ کچھ نہیں بگاڑسکیں گے ۔ حضرت علی جو “سمعنا اور اطعنا “ کی چونکہ عملی تمثیل تھے ،وہ اس کے بعد کوئی سوال ہی نہیں کرتے ہیں اور چپ چاپ حضور ﷺ کے بستر ِمبارک پر محو استرا حت ہو جاتے ہیں ۔ بعد میں وہ اکثر فر ما یا کرتے تھے کہ “ مجھے اس دن سے زیادہ بہتر نیند پھر کبھی نہیں آئی “ مدینہ منورہ پہنچ کر بھی وہ ہر مر حلے پر ، ہر سرد اور خشک میں حضور ﷺ کے ساتھ نظرآتے ہیں ۔ ایک دن حضورﷺ مہاجر اور انصار میں بھائی چارہ کراتے ہیں اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا ہاتھ تھام کر فر ماتے ہیں یہ میرا بھا ئی ہے۔ اسکے بعد انہیں شرفِ دامادی عطاہو تا ہے وہ انکی ﷺچہیتی صاحبزادی حضرت فا طمہ الزہراءسلام اللہ علیہا کے شوہر بنتے ہیں ۔ تمام غزوات میں حصہ لیتے ہیں ۔ کافروں کے مشہور سورما عبد ود کو غزوہ خند ق میں قتل کر تے ہیں جو کہ ایک ہزار سواروں کے برابر مانا جاتا تھا ۔ پھر اس درِخیبر کو اوکھاڑ پھینکنے والا واقعہ رونما ہو تا ہے ۔ جبکہ اس پر پہلے کئی حملے ناکام ہوچکے تھے۔ اور یہودیوں کے خیال میں وہ قلعہ نا قابل تسخیر تھا۔ اس صورتِ حال میں حضور (ص)یہ مزدہ سناتے ہیں کہ کل میں پرچم اس کو دونگا جس کو اللہ اور رسول ﷺ سب سے زیادہ چاہتے ہیں ؟ لوگ رات بھر منتظر رہتے ہیں کہ دیکھئے وہ کون خوش نصیب ہے جس کو کل یہ اعزاز حاصل ہو تا ہے ؟صبح کوعلی کرم اللہ وجہہ کو طلب فر ماکر پرچم دربارِ رسالت سے انکوعطا فر مایا جاتا ہے ، جبکہ وہ آشوب ِ چشم میں مبتلا ہیں ، حضور ﷺ اپنے لعاب دہن سے مسیحائی فرماتے ہیں اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ اس دروازے کو تنہا اوکھاڑ پھنکتے ہیں جو مختلف روایات کے مطابق دس سے لیکر چالیس مجاہدین سے بھی بعد میں نہیں اٹھ سکا اور قلعہ فتح کر کے کا میاب اور کامراں واپس تشریف لاتے ہیں ۔ اور ہاں وہ واقعہ بھی جبکہ نجران کے عیسا ئیوں کا وفد آتا ہے اور ان سے آیت ِ مبا ہلہ کے نزول کے بعد حضور ﷺ سے یہ معاملہ طے پا تا ہے کہ وہ بھی کل اپنے بیٹی بیٹوں کو لے کر آئیں اور میںﷺ بھی کل اپنے بیٹی بیٹوں کو لیکر آتا ہوں؟ دوسرے دن جو اصحاب حجرے سے بر آمد ہوتے ہیں، ان میں آگے آگے حضور ﷺ تھے ، ان کے پیچھے حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور حضرت فا طمہ الزہرہ سلام اللہ علیہا اور حسن اور حسین رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین تھے۔ اس کے بعد اب تاریخ میں یہ اندراج بھی ملا حظہ فر ما لیں جو کہ ہر طرح سے مستند ہے کہ جب سورہ توبہ کی وہ آیات جن میں کفار پر حج کرنے اور حدود ِ حرم میں رہائش اور داخلہ پر پابندی لگا ئی گئی ، توحضور ﷺ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو اس کا اعلان کر نے کے لیئے روانہ کیا جبکہ امیر حج کے طور پر وہ پہلے ہی حضرت ابو بکر ؓ کو روانہ فر ما چکے تھے۔صحابہ کرام ؓ نے مشورہ دیا کہ انہیں کسی قاصد کے ذریعہ مطلع فر مادیں ، وہ وہاں اعلان کر دیں گے ۔ مگر حضور ﷺ نے فر مایاکہ اس کام کے لیئے اہل ِ بیت میں سے ہی کوئی ہونابہتر ہے ۔ پھر وہ واقعہ جبکہ حضور ﷺ پہلی مرتبہ انکو اپنے پیچھے مدینہ میں اہل ِ بیت کی نگہداشت کے لیئے چھوڑ گئے، مگر ان کی حمیت نے گوارا نہیں کیا کہ حضور ﷺ کو تنہا خطرے کے وقت چھوڑ دیں جب کہ منافق سب بغلیں بجا رہے تھے کہ یہ یا تو شہید ہو جا ئیں گے یا رومن فو جیں گر فتار کر لیں گی ۔ بلکہ رئیس المنا فقین عبد اللہ بن ابی سلول کی تاج پوشی کی تیاری بھی شروع ہوچکی تھی ۔ ابھی حضورﷺ چند منزل ہی تشریف لے گئے تھے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ پہونچ گئے۔ پوچھا کیسے آئے ؟انہوں نے حقیقتِ حال عرض کی فرمایا واپس جا ؤ! کیا تم نہیں چاہتے کہ مجھ میں اور تم میں وہی نسبت ہو جو حضرت مو سیٰ ؑ اور ہارون ؑ میں تھی۔ بظاہر اس ارشادِ رسالت ﷺ میں کوئی ایسی بات نہ تھی مگر اس کے جو مضمرات تھے وہ بابِ علم نے سمجھ لیئے کہ ان کو حضور ﷺ نے کونسا کام سونپا ہے اور انہیں اس سے عہدہ برآ ہو نا ہے ۔ وہ تھا دین کی اقامت اورحفاظت ۔ جس کو انہوں نے حضور ﷺ کے بعد اپنی ذمہ داری سمجھا اور بخوبی نبھا یا ۔ حتیٰ کہ جب کوئی خلافت لینے کو تیار نہیں تھا تو وہ بار بھی انہوں نے لوگوں کے مجبور کر نے پر اٹھایا۔ جب کے اس سے پہلے وہ ہمیشہ گریزاں رہے۔ کیونکہ یہ وہ مرحلہ تھا کہ پرانے صحابہ کرام ؓ یا تو اللہ کو پیارے ہو چکے تھے یا بوڑھے ہو کر اپنا اثر کھوچکے تھے۔ اور نومسلموں کو دورِ اولیٰ جیسی تربیت نہ ملنے کی وجہ سے وہ دولت کی کثرت کی بنا پر عجمی رنگ میں رنگ چکے تھے اور اخلاقی پستی کا شکار بھی ،ایسے میں انہوں نے اسوہ رسول ﷺکو دوبارہ زندہ کر نا چا ہا تاکہ اسلام کی نشاةِ ثانیہ ہو سکے جس پر وہ زندگی بھر عامل رہے۔ لیکن اب وقت بدل چکا تھا لہذالوگوں نے انہیں چین نہیں لینے دیا انہوں نے مردانہ وار حالات کا مقابلہ کیا۔ مگر وہ اپنوں اور غیروں کی ریشہ دوانیوں سے بہت ہی دلبرداشتہ ہوگئے اور انہیں کثرت سے حضور ﷺ کا وہ ارشادِ گرامی یاد آنے لگا۔ جس میں انہیں ، ان کی شہادت کی خبر یہ فرماکر دی گئی تھی “ تمہیں اس امت کاایک بدترین اور مردود شخص شہید کرے گا اور تمہارے سر کے خون سے تمہاری داڑھی تر ہو گی “ وہ بار بار فرماتے کہ وہ بد بخت ابھی تک پیدا کیوں نہیں ہو ا تاکہ میں اپنے رفیق ِاعلیٰ سے جا ملوں ۔ وہ شخص پیدا تو ہوچکا تھا مگر ابھی وقت نہیں آیا تھا۔ وہ وقت بھی انیس یا سترہ رمضان کو بہ اختلاف مورخین آگیا اور ایک ابن ِ ملجم نامی مردود نے اپنے چند دوسرے خارجیوں کے ساتھ ملکر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے قتل کی سازش کی جس میں ایک قطامہ نام کی عورت بھی شامل تھی ۔

ابن ِ ملجم نے اپنی زہریلی تلوار سے اس وقت ان پرحملہ کیا جب وہ فجر کی نماز کے لیئے باہر تشریف لائے ۔ اس مردود نے ان کے سرمیں ضربِ کاری لگا ئی ۔ حضرت علی کرم اللہ نے پنی جگہ جعدہ بن ہبیرہ بن ابی وہب کو نماز فجر کی امامت کے لیئے کھڑا کیا اور پھر مسجد کے فر ش پر دراز ہو گئے ۔ حضور ﷺ کے ارشاد کے مطابق ان کی ریش ِمبارک خون سے تر ہوچکی تھی لہذا انہوں نے جان لیا کہ ان کا آخری وقت آپہو نچا ہے۔ کاتب کو طلب کیا اور ایک بے مثال وصیت تحریر فر ما ئی جو کہ امت کے لیئے قیامت تک مشعل راہ رہے گی اور پھر اس عظیم مجاہد نے جس کی زندگی میدان جنگ میں گزری اپنی جا ن اکیس رمضان المبارک کو اللہ سبحانہ تعالیٰ کے سپرد کر دی اور اپنے رفیق اعلیٰ سے جاملا۔ اناللہ وانا الیہ راجعون
Dr. Shams Jilani is Canada based senior Urdu Columnist, Social worker & Islamic writer. A senior member of many multicultural advisory boards of City of Richmond, British Columbia, Canada. His more than four thousand columns on diverse issues has appeared in many international Urdu newspapers of UK, Pakistan, Canada & USA in addition to more than twenty two books.